رانا ثنا اور بِھڑ کا ڈنک

خان نے بڑے دل کا مظاہرہ کیا اور مخالفوں کو معافی دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ خبر تو چھپ گئی لیکن اس بارے میں کوئی خبر نہیں ہے کہ معافی کس نے مانگی ، کب مانگی۔ سنا ہے ملک کے بہترین اور غیر بہترین سراغ رساں یہ کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ معافی کس نے مانگی، کب مانگی اور کیسے مانگی۔ بظاہر اس کھوج کے کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے۔ بہرحال، بتانے کی بات یہ ہے کہ خان نے ان حضرات کو معافی دی ہے جن کے بارے میں انہوں نے ماضی قریب و بعید میں یہ بیان گیارہ ہزار بارہ سو تہتر بار دیا تھا کہ انہیں نہیں چھوڑوں گا اور جن کے بارے میں انہوں نے یہ بیان بارہ ہزار گیارہ سو تہتر بار دیا تھا کہ مر جائوں گا، ان سے مذاکرات یا بات نہیں کروں گا۔ تازہ بیان کے مطابق وہ ان سے بات کرنے کو صرف تیار ہی نہیں، بے تاب بھی ہو گئے ہیں۔
انقلاب چرخ گرداں اس کو کہتے ہیں۔ 
_____
چند ہی روز انہوں نے گائے کی دْم پکڑ لی تھی۔ دْم پکڑنے کی ’’تلمیح‘‘ آپ کے علم میں ہے__ ایک کنیا غصہ ہو کر روٹھ گئی اور گائوں سے باہر گوبر کی ڈھیری کے پیچھے چھپ گئی۔ سارا دن انتظار کرتی رہی کہ کوئی منانے آئے گا، اب آئے گا ، تب آئے گا۔ شام ہو گئی کوئی نہیں آیا۔ ادھر سے چارہ چرنے والے پشو واپس لوٹے۔ ان میں کنیا کے گھر کی گائے بھی تھی۔ اس نے اس کی دم پکڑ لی اور یہ چیختے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے گھسیٹنے لگی کہ اری گیّا موسی، مجھے کہاں لے جا رہی ہو، کہا ناں، مر جائوں گی، گھر نہیں جائوں گی اور یہی واویلا مچاتی مچاتی گھر پہنچ گئی اور کہا، میں کہاں آنے والی تھی، یہ کم بخت ماری گیّا مجھے گھسیٹ کر لے آئی۔ 
ایوان انصاف سے ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ آخر پارلیمنٹ جا کر پارلیمانی قوتوں سے مذاکرات کیوں نہیں کرتے۔ بس اسی سوال کو گیّا موسی کی دم سمجھئے۔ اسی سے لٹک لئے۔ اور ساڑھے تیرہ ہزار بار دیا گیا یہ بیان گوبر کی ڈھیری کے پیچھے چھوڑ آئے کہ بات ہو گی تو فوج سے، ان چور ڈاکوئوں سے بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بس پھر اچانک سے یہ سوال پیدا ہو ہی گیا۔ سوال پیدا ہونے سے چند روز پہلے ہی بڑے طمطراق سے ایوان صدر کے سابق براجمان سے یہ للکار آمیز بیان بھی دلوایا کہ باغ کے مالک سے بات ہو گی، مالی چپڑاسی سے نہیں۔ 
اب اسی مالی چپڑاسی سے بات کرنے کو طبیعت یکایک مان گئی۔ خان کے ایک متوالے سے اس انقلاب چرخ گرداں کے بارے میں پوچھا تو پونے دو درجن گالیاں اور سوا تین درجن مغلظات ارشاد فرمانے کے بعد بولا کہ اوے، تم کیا جانو، خان نے کتنا بڑا ٹرمپ کارڈ کھیل دیا ہے، اب دیکھنا! 
_____
اسلام آباد کے ایک تجزیہ کار نے اپنے ولاگ میں بتایا کہ انہوں نے خان کا کیس لڑنے والے ایک بڑے وکیل سے پوچھا کہ مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہو گا۔ وکیل نے کہا، یک نکتی ایجنڈا ہے، خان کو باہر لانا۔ 
پوچھا، وہ 88 سیٹوں پر چوری کئے گئے مینڈیٹ کی واپسی والی شرط کہاں گئی تو فرمایا، خان جیل سے باہر آئے گا تو خود ہی یہ سیٹیں واپس لے لے گا، بس ایک بار باہر تو آنے دو۔ 
_____
خان کی فراخدلانہ معافی کے معنے ایک رحونیاتی ماہر سے پوچھے گئے تو اس نے بتایا، خان نے کوڈ والی زبان استعمال کی ہے۔ اس کوڈ کو ڈی کوڈ کرو تو فقرہ یوں بنے گا، خدا کیلئے مجھے باہر نکالو، ہم سے بْھول ہو گئی، ہم کا مافی دئی دو۔
_____
ان دو بڑی خبروں کے ساتھ ایک نسبتاً کم بڑی خبر بھی ہے۔ وہ یہ کہ خان نے اپنا وہ بیان واپس لے لیا ہے کہ مجھے جیل کے اندر کال کوٹھڑی یعنی ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے۔ 
اس بیان کو واپس لے کر یہ نیا بیان جاری کیا گیا ہے کہ دراصل مجھے جس کمرے میں رکھا گیا ہے، اس کی دیوار ڈیتھ سیل سے ملتی ہے۔ 
چیلیات کے امور سے متعلق اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ اڈیالہ کے اس حصے میں جہاں خان صاحب قید ہیں، کوئی بھی کال کوٹھڑی یا ڈیتھ سیل ہے ہی نہیں۔ ڈیتھ سیل ، جیل کے دوسرے حصے میں ہیں۔ 
ممکن ہے خان صاحب رحونیاتی قربت کی بات کر رہے ہوں۔ یعنی موت کی کوٹھڑی ہے تو دور لیکن رحونیاتی قرب اتنا زیادہ ہو کہ پاس نظر آ رہی ہو۔ ویسے ہی جیسے امریکہ یہاں سے ہزاروں میل دور ہے لیکن ہمارا قریب ترین پڑوسی ملک، اس کے باوجود امریکہ ہی ہے۔ بھارت چین ایران افغانستان بعد میں آتے ہیں۔ 
_____
رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی ایک اور 9 مئی کرنے والی ہے۔ 
رانا صاحب نے علم الحشرات غالباً بالکل نہیں پڑھا۔ اس میں لکھا ہے کہ بھڑ اور ازقبیل بھڑ حشراتِ دیگر جب ایک بار ڈنک مار چکے ہوں تو دوسری بار ڈس نہیں سکتے۔ جسے مارتے ہیں، ڈنک ٹوٹ کر اس کے جسم میں رہ جاتا ہے۔ کسی کو دوسری بار ڈسے جانے کی تمنا ہے تو اسے دوسری بھڑ ڈھونڈنا ہو گی۔ 
_____
پاکستان کی تاریخ کا آسان ترین بجٹ پیش کر دیا گیا۔ آسان ترین اس لئے کہ پاکستانی محکمہ خزانہ کو کچھ بھی تو نہیں کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف نے سارا بجٹ بنایا جو پیش ہو گیا۔ اس کی منظوری بھی کچھ مسئلہ نہیں ہو گی، آئی ایم ایف والے خود ہی منظور کرا لیں گے۔ 
دریں اثنا سالانہ اقتصادی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال گزشتہ (2024-23ء ) میں پاکستان کی اشرافیہ کو اب تک کی سب سے بڑی مالیاتی چھوٹ دی گئی یعنی 39 ارب روپے قومی خزانے سے ان کی جھولی میں ڈال دئیے گئے۔ ٹیکس چھوٹ کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ غریبوں کی جیب سے مال نکالو، امیروں کو دو اور پھر آئی ایم ایف سے قرضے لو۔ 
چھ مہینے اس مالی سال میں کاکڑ سرکار (گندم سکینڈل والے) کے تھے اور پانچ ماہ شہباز حکومت کے ، گویا یہ نیک کام شراکت داری کے اصول پر کیا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن