پیپلز پارٹی کے گلے شکوے اور ظالم سیاست!!!!

پاکستان پیپلز پارٹی مختلف معاملات پر حکومت سے ناراض ہے یا یوں کہا جائے کہ اہم فیصلوں میں مشاورت نہ ہونے پر شکوے کر رہی ہے۔ حالانکہ یہ بہت حیران کن ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی بجٹ یا دیگر معاملات پر حکومتی فیصلوں پر تنقید کر رہی ہے۔ یہ خالصتا ایک روایتی سیاسی طریقہ کار ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات ہوتی رہتی ہے کہ کچھ معاملات میں حکومتی اقدامات کی تعریف بعض معاملات میں تنقید سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ کیونکہ مسلسل خسارے کے باوجود اگر پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری نہیں ہو رہی تو اس کی کوئی خاص وجہ تو ہے اور یہ وجہ سیاسی ہے اور اس سیاسی فیصلے کے پیچھے پاکستان پیپلز پارٹی ہی ہے۔ ویسے تو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی تباہی میں بھی ایک مخصوص صوبے کی سیاسی قیادت کا بہت بڑا ہاتھ ہے، اگر غیر ضروری ملازمین بھرتی نہ کیے جاتے، پیشہ وارانہ انداز میں ایئر لائن کو چلایا جاتا، میرٹ کو یقینی بنایا جاتا، ریاست کے اثاثے کو اہمیت دی جاتی تو یقینی طور پر پی آئی اے نہ تو تباہ ہوتا، نہ سالانہ اربوں خسارے کا سامنا کرنا پڑتا، نہ ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا اور ہی حکومت کو اس اہم ترین ادارے کی نجکاری کرنا پڑتی۔ اب اگر اتنے برسوں میں کوئی پی آئی اے میں میرٹ قائم نہیں کر سکا، سیاسی بھرتیوں کو روک نہیں سکا، سیاسی مفادات کو ترجیح دیتا رہا ہے تو پاکستان سٹیل ملز کو کیسے اس کے حوالے کر لے یہ سوچا جا سکتا ہے کہ سٹیل مل منافع بخش ادارے میں بدل جائے گی۔ چونکہ پاکستان سٹیل ملز کو سندھ حکومت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ جن معاملات میں پاکستان پیپلز پارٹی حکومت مخالف بیانات دے رہی ہے وہ صرف اور صرف اپنے آپ کو عوام دوست، جمہوریت پسند اور وطن سے محبت کرنے یا قومی مفاد کو ترجیح دینے والی سیاسی جماعت ثابت کرنے سے کچھ زیادہ نہیں ہے۔ مطلب سٹیل ملز سندھ حکومت کو مل جائے اور پاکستان پیپلز پارٹی یہ کہے کہ حکومت مشاورت نہیں کرتی یہ تو سیاسی بیان بازی ہے یعنی صرف اور صرف اپنے لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی حکمت عملی ہے۔ یہ تو کھلم کھلا لین دین ہے، یعنی دونوں بڑی جماعتوں نے طے کیا کہ تم میرا یہ کام کرو میں تمہارا وہ کام کر دوں گا تم فلاں معاملے میں میرا ساتھ دو میں فلاں معاملے میں تمہارا ساتھ دوں گا۔ یہ سیاست کی بدترین شکل ہے یعنی عوام کا ملک کا ریاست کا ساتھ نہیں دینا بس اپنے اپنے مفادات کے مطابق کام کرنا ہے۔
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کہتے ہیں کہ "پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری اب نہیں ہو گی، وفاقی حکومت نے 700 ایکڑ زمین سندھ حکومت کے حوالے کر دی ہے وہی موجودہ پلانٹ کو فعال کرے گی یا نیا پلانٹ لگائے گی۔ سٹیل ملز کے ملازمین کی تعداد تین ہزار سے زائد ہے، سٹیل ملز کافی عرصے سے بند ہے، یہ آج بند نہیں ہوئی پچھلے پانچ سال کے دوران بھی اس کی یہی صورتحال تھی، موجودہ حکومت نے سٹیل ملز کو فعال بنانے کیلئے نجکاری کے عمل میں لے کر گئی تھی لیکن اب نجکاری کا عمل ختم کر دیا گیا ہے۔ انیس ہزار ایکڑ سٹیل ملز کی زمین ہے، ساڑھے پانچ سو ایکڑ پر سٹیل ملز کا پلانٹ ہے، سٹیل ملز کی زمین پر سپیشل اکنامک زون قائم کیا جائے گا، وہاں پر فیکٹریاں بھی لگی ہیں، 1500 ایکڑ پر ایکسپورٹ پراسیسنگ زون بنایا جا رہا ہے چین اور دیگر دوست ممالک وہاں پر انڈسٹری لگانا چاہتے ہیں، سات سو ایکڑ زمین ہم نے چھوڑ دی ہے، سندھ حکومت بھی سٹیل ملز کو چلانے کے حوالے سے اقدامات کرے گی، کچھ زمین پر تجاوزات بھی ہیں۔"
یہ سیاسی لیں دین نہیں تو کیا ہے کیونکہ یہی حکومت پی آئی اے کی نجکاری کرتے ہوئے کہتی ہے کہ کاروبار کرنا حکومت کا کام نہیں حکومت سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہے تو پھر یہی قانون، اصول ہا سوچ پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری پر لاگو کیوں نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہاں معاملہ سیاسی مفادات کا ہے، اپنے لوگوں کو نوازنے کا ہے۔ کیا سندھ حکومت یا پاکستان پیپلز پارٹی کئی دہائیوں سے صوبے میں حکومت کرنے کے باوجود لوگوں لے بنیادی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اگر نہیں تو وہ پاکستان سٹیل ملز کو کیسے چلائیں گے۔ یہاں اگر کاروبار ہونا ہے، بیرونی سرمایہ کاری کا راستہ موجود ہے تو پھر سمجھ جائیں کہ سونے کی چڑیا کون اڑنے دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سٹیل مل کے معاملے میں وفاقی حکومت نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی لین دین سے کام لیا ہے۔ کاش کہ ہم سیاسی مفادات کے بجائے ملکی مفاد کو ترجیح دینا سیکھ لیں۔ اس لیے جو خبریں وفاقی بجٹ کے حوالے سے سامنے آئیں کہ پی پی پی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا یہ سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت ہی ہوا ہے۔ دو روز قبل یہ خبر بھی تھی کہ بجٹ سے متعلق حکومت کی جانب سے اعتماد میں نہ لینے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ جب سٹیل مل کے معاملے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے موقف کو مانا جائے گا تو پھر کسی اور جگہ وہ بھی حکومت کی بات مانیں گے۔ یہی پاکستان کی سیاست میں ہوتا آیا ہے اور یہی ہو رہا ہے۔
پی پی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ نے کہتے ہیں کہ "پیپلز پارٹی کو بجٹ، آئی ایم ایف اور چین سے معاہدوں پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اگر آئی ایم ایف نے کچھ شرائط رکھی ہیں تو حکومت اعتماد میں لے۔ اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلے ، حکومت ناکام ہوئی تو ناکامیاں پیپلز پارٹی کے بھی گلے پڑیں گی۔"
شاہ صاحب کو پیپلز پارٹی کی فکر ہے لیکن جو ظلم پاکستان کے لوگوں پر ہو رہا ہے اس کی کسی کو فکر ہے یا نہیں؟
کیا مسلسل حکومت میں رہنے کے بعد بھی پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، امن و امان کی بری حالت ہے، ٹرانسپورٹ کی بدترین صورتحال ہے، پینے کے پانی کا مسئلہ اپنی جگہ ہے، بارش ہو تو سڑکیں پانی سے بھر جاتی ہیں، ملک کا معاشی مرکز کراچی دیرینہ مسائل کی وجہ سے آج بھی حکومتی دعوؤں کا منہ چڑا رہا ہے لیکن سیاست زندہ باد، ظالم سیاست زندہ باد، یہی ماضی میں ہوتا آیا ہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔
 خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے سیاسی قیادت سے مذاکرات کے لیے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو مکمل اختیارات دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کی جانب سے پارٹی کو تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے مذاکرات کا مشورہ دیا گیا ہے۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمٰن ایک ہی کنٹینر پر کھڑے نظر آ سکتے ہیں۔ اب اس سیاسی پیشرفت پر کچھ بھی کہنے کے بجائے صرف ان تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی ایک دوسرے بارے رائے سامنے رکھی جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ کیا یہ لوگ ملک کی خدمت میں مخلص ہیں یا پھر اپنے اپنے سیاسی مفادات کی حفاظت کے لیے ہی بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔
آخر میں اثر لکھنوی کا کلام
ساغر اْٹھا لیا کبھی مِینا اْٹھا  لیا
توبہ جو یاد آ گئی رکھا، اْٹھا  لیا
لاتا ہے روز جان پر آفت نئی نئی
جا تْجھ سے ہاتھ اے دلِ شیدا اْٹھا لیا
مثلِ نسیم پھر نہ لیا اِک جگہ قرار
جس نے تِری تلاش کا  بیڑا اْٹھا لیا
لذتِ حیات بھی گئی دردِ دل کے ساتھ
پچھتا رہا ہوں، نازِ مسیحا اْٹھا  لیا
آسودگانِ خاک سے یہ بد گمانیاں
دامن زمیں پہ لوٹ رہا تھا اْٹھا لیا
اب اشکِ غم کھٹکتے ہیں آنکھوں میں اِس طرح
گویا پلک سے ریزہ  مینا  اْٹھا  لیا
کیا کیا ستم گْزر گئے  جانِ  غیور پر
احسان اثر جو ہم نے کسی کا اْٹھا لیا

ای پیپر دی نیشن