نیب کا وزارت داخلہ کو خط دہرے معیار کا عکاس
نیب نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف، مریم نواز، کیپٹن(ر) صفدر، حسین نواز اور حسن نواز کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے وزارت داخلہ کو خط لکھ دیا ہے۔ نیب نے دوبارہ لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ ملزموں کیخلاف ریفرنسز آخری مراحل میں اور انکے بیرون ملک فرار ہونے کا خدشہ ہے۔
نوازشریف تو میڈیا پر کہہ رہے ہیں کہ وہ اس کیس میں ہر سزا بھگتنے کو تیار ہیں۔ ذرائع بلاغ کے مطابق وہ اس ریفرنس سے اس قدر عاجز آئے ہوئے ہیں کہ وہ اس سے جلد از جلد جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ جب ”ملزم“ مقدمے کا جلد از جلد فیصلہ ہونے اور ہر سزا بھگتنے پر آمادہ ہو تو پھراس کے بارے میں بیرون ملک فرار ہو جانے کے خدشات کا اظہارکسی اور ہی حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے۔ مذکورہ خط میں حسین نواز اور حسن نواز کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالنے کی ہدایت کی گئی ہے، حالانکہ وہ پہلے ہی ملک سے باہر کہیں مقیم ہیں۔ سابق وزیراعظم کی کینسر کی مریضہ اہلیہ لندن میں زیر علاج ہیں۔ وہ اور ان کی بیٹی مریم نواز گاہے بگاہے عیادت کیلئے لندن جاتے رہتے ہیں۔ وہ نہ صرف واپس آجاتے ہیں بلکہ بروقت پیشیاں بھی بھگتتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار دو روز قبل بڑی خوشدلی سے میاں نوازشریف اور مریم نواز کو محترمہ کلثوم نواز کی عیادت کیلئے کسی تحریری درخواست کے بغیر لندن جانے کی اجازت دے چکے ہیں ،بلکہ اس اجازت کا کئی بار اعادہ کر چکے ہیں۔ یہ ساری باتیں ہر شہری کو معلوم ہیں۔ ایک طرف نوازشریف و دیگر ان درجنوں پیشیاں بھگتتے چلے آ رہے ہیں تو دوسری طرف پرویز مشرف بھی ہیں جو ملک کا آئین ایک بار نہیں دو بار توڑ چکے ہیں ان پر غداری کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھالیکن انہیں ”علاج“ کیلئے بیرون ملک جانے دیا گیا جو وہاں راگ و رنگ کی مجالس کو بھرپور انجوائے کرتے نظر آتے ہیں۔بیماری کاشائبہ تک نہیں مگر وہ عدالت کے بار بار طلب کرنے کے باوجود واپسی پر آمادہ نہیں ۔ اب اچانک ان کا ضبط شدہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بحال کرنے کا حکم دے کر انہیں عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ بڑے سے بڑا جرم بھی آئین شکنی اور غداری سے زیادہ سنگین نہیں ہو سکتا۔ اگر بالفرض نوازشریف نے قومی خزانے کو کھربوں کا بھی نقصان پہنچایا ہے تو بھی یہ جرم آئین شکنی کے برابر نہیں ہو سکتا۔ اس پر اگر نوازشریف تنقید اورعام آدمی تعجب کا اظہار کر رہا ہے تو کچھ غلط نہیں کر رہا۔ اداروں کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے ان کی ساکھ متاثر ہو یا جو دہرے معیارے کی عکاسی کرتا ہو۔ قومی خزانے سے سوئی چرانے والے کو بھی یقیناً قرار واقعی سزا ملنی چاہئے لیکن آئین شکنی پر بھی کسی کو رعایت کا مستحق گرداننا انصاف کی عملداری کے برعکس ہی نظر آتا ہے۔