ایبٹ آباد کا پہلا یوم آزادی
ایبٹ آباد ضلع ہزارہ کا صدر مقام اور سطح سمندر سے ساڑھے چار ہزار فٹ بلندی پر خوبصورت اطراف پہاڑی سلسلہ پر پُرفضاء مقام پورے برصغیر میں مشہور تھا۔ انگریزوں نے اسے فیملی اسٹیشن کا درجہ دیا ہوتا تھا۔ 1947ء تک شہر کی آباد تقریباً پچیس ہزار تھی جس میں ہندو اور سکھوں کی تعداد تقریباً نصف تھی۔ چار انگریزی چار سٹار ہوٹل ایبٹ ہوٹل( موجودہ برن ہال) وڈاک ہوٹل( کریم پورہ) سپرنگ فیلڈ ہوٹل( متصل عیدہ گاہ) اور پیلس ہوٹل (موجودہ کمشنر آفس) اس کے علاوہ سرکٹ ہاؤس ریسٹ ہاؤس اور ڈاک بنگلہ وغیرہ ہمیشہ انگریز خاندانوں سے بھرے رہتے تھے۔ مردان کے نواب خاندان اور تو روکے نواب خاندان ودیگر بڑے بڑے خوانین چارسدہ‘ تنگی بھی بمعہ اپنے خاندانوں کے گرمیاں ایبٹ آباد میں گزارتے تھے۔ایبٹ آباد چھاؤنی کا خوبصورت علاقہ جہاں گورکھار جمنٹ کے سینٹر ہونے کی وجہ سے کئی گورکھاخاندان آباد تھے۔ اسی طرح سپلائی اور کاکول میں انگریز رجمنٹس قیام پذیر تھیں جن کی وجہ سے شہر میں کافی رونق رہتی تھی۔ مقامی مسلمان اور ہندو بھی آپس میں مل جل کر رہتے تھے اور ایک دوسرے کے غم وخوشی میں برابر کے شریک رہتے تھے۔ شہر میں تین سینما گھر رائل سینما‘ پیلس سینما اور تاج محل تھیْ مقامی فوج اور حویلیاں مانسہرہ کے لوگ بھی عیدین اور چھٹیوں کے موسم میں رونق بخشتے تھے۔سیاسی طور پر ایبٹ آباد ایک مشہور مقام تھا۔ علامہ اقبالؒ‘ ڈاکٹر اجمل انصاری‘ مہاتما گاندھی‘ پنڈت نہرو‘ علی برادران‘ نواب بہادر یار جنگ‘ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور علامہ مشرقی وغیرہ بھی یہاں تشریف لائے تھے۔ قائداعظمؒ نے 1948ء میں عین وقت پر صحت کی خرابی کی وجہ سے اپنا دورہ ملتوی کر دیا تھا۔ مسلم لیگ کانگریس ‘ خاکسار‘ مجلس احرارء یہ تمام سیاسی جماعتیں یہاں پر اپنی سیاسی سرگرمیاں فعال رکھتی تھی چونکہ شہر میں ننانوے فیصد کاروبار غیر مسلموں کے ہاتھ تھا جس کی وجہ سے یہاں کانگریس بھی کافی مضبوط تھی۔ 1936ء میں مسلم لیگ کا قیام بھی ایبٹ آباد میں ہوا تھا اور مسلم لیگ ضلع ہزارہ کی سب سے بڑی اہم جماعت بن گئی۔ کانگریس حکومت کے خلاف تحریک سول نافرمانی جو تحریک پاکستان بن گئی وہ ایبٹ آباد سے ہی شروع ہوئی اور جامع مسجد میں حجرہ مولانا اسحاق خطیب ہزارہ مسلم لیگ وار کونسل دفتر بنا جس نے پورے ضلع میں تحریک کی رہنمائی کی یہاں کی مقامی شہری نوے فیصد مسلم لیگی تھے جس میں محلقہ علاقہ جات شامل بھی تھے جس کی وجہ سے یہاں حکومت کا دباؤ زیادہ تھا۔ ڈپٹی کمشنر ایک متعصب انگریز میجر سینٹ جان تھا جس نے تحریک کو کچلنے کی بڑی کوشش کی اور پورے ضلع کی نوکر شاہی سوائے دو مسلم افسران جن میں جناب کرنل یوسف مرحوم (اے سی ایبٹ آباد) اور جناب اے بی اعوان ایس پی ہزارہ تھے جو کہ مسلم لیگ کی درپردہ حمایت کرتے تھے۔ باقی سب میجر سینٹ جان کے حکم پر بڑا تشدد کرتے تھے۔جب 2 جون کو قائداعظم نے پاکستان بننے کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ تحریک بھی ختم ہوگئی۔ مسلم لیگی ہری پور جیل سے رہا ہونے شروع ہوگئے اور ریفرنڈم کیلئے تیاریاں شروع ہوگئیں ۔ انگریز حکومت نے 14 اگست کو برصغیر دو علیحدہ مملکتوں میں آزاد کرنے کا اعلان کر دیا۔ ایبٹ آباد ہزارہ کی مشہور ہستی اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما مولانا محمد اسحاقؒ‘ جلال باباؒ اور قیوم خان‘ سردار بہادر خان رہا ہو کر آئے تو انہوں نے حضرت خطیب صاحب مرحوم کے سرپرستی میں انگریز ڈپٹی کمشنر میجر سینٹ جان کو مجبور کیا کہ 14 اگست کو کمپنی باغ ایبٹ آباد میں شہریوں کے سامنے اپنے انگریزی جھنڈا اتار کر پاکستانی جھنڈا لہرائے گا اور اسے سلامی دے گا۔انگریز ڈپٹی کمشنر نے حضرت مولانا کے مطالبہ پر سرخم تسلیم کیا پاکستان میں ایبٹ آباد واحد شہر ہے جہاں پر باقاعدہ انگریز کے ہاتھوں اپنے قومی جھنڈا کو اتارنا پڑا اور نئے ملک جس کی وہ بہ حیثیت ڈپٹی کمشنر سخت مخالفت کرتا تھا اس کو وہ سبز جھنڈا لہرانا پڑا۔(راقم اس تمام حالات کا چشم دید گواہ ہے بحثییت مسلم لیگی طالب علم جو کہ 1946ء کے الیکشن علی گڑھ کے طلباء کے ساتھ اور بعد میں تحریک پاکستان میں پیش پیش تھا)