بہت  دیر کی مہرباں آتے آتے

  
اُلٹ پھیر… شاہد لطیف
kshahidlateef@gmail.com
نواب مرزا خان ا لمعروف داغؔ دہلوی ( المتوفی 1905 ) کا ایک شعر  23   مارچ  2024  کو حسن عسکری بھائی کے بعد از وفات صدارتی تمغہء حسنِ کارکردگی دیے جانے پر صادر آ رہا ہے
  نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
  بہت دیر کی مہرباں آتے آتے  
ہمارے ملک میں ہر سال  مُختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر  سِول  سرکاری انعامات  نشان  ہلال ،  ستارہ امتیاز  اور  تمغہ حسن کارکردگی کے عنوانات سے  دیے جاتے ہیں۔ اِن میں سب سے اعلیٰ ترین  سِول انعام صدارتی تمغہء حُسنِ کارکردگی ہے۔ اِن انعامات کا آغاز  19 مارچ  1957سے شروع ہوا جب 1956  میں پاکستان کا آئین بنا۔یہ انعامات عام طور پر   ہر سال  یومِ آزادی کے پُر مسرت دن  14  اگست کو اعلان کر کے  آئندہ سال 23   مارچ کی ایک  پُروقار تقریب میں دیے جاتے ہیں۔ صدارتی تمغہء حُسنِ کارکردگی ممتاز اور شاندار کارکردگی دکھانے یا طویل خدمات کے صلے میں فنون،  ادب،  سائنس،  کھیل اور فلاحِ انسانیت کے شعبوں میں دیے جاتے ہیں۔ اسلام آباد میں  صدرِ پاکستان اور صوبوں میں  متعلقہ گورنر  مذکورہ  انعامات د یتے ہیں۔ فنکاروں کو  انعام دیے جانے کے طریقہء کار پر میری کچھ عرصہ اُدھر نیاز حسین لَکھویرا  صاحب سے بات ہوئی۔ یہ  لاہور آرٹس کونسل میں کو ارڈینیٹر / انچارج رہے ہیں۔ موصوف خود بھی شاعر،  ادیب،  موسیقی اور تھیٹر سے وابستہ رہے ہیں۔ اُن کا یہ جوہر فنکاروں کو ملنے والے صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی اور تمغہ امتیاز کی صورت میں نظر آتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ  اُستاد فتح علی خان،  اُستاد سلامت علی خان، حسین بخش گلو،  اسد امانت علی،  حامد علی خان،  شوکت علی،  نصرت فتح علی،  عطا ء اللہ عیسی خیلوی،  ریشماں،  پرویز مہدی،  مُنیر حسین،  سائیں ظہور،  عارف لوہار کو انہوں نے آرٹس کونسل کی جانب سے صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی / ستارہ ء امتیاز  کے لئے نامزد کیا ۔ پھر اِن سب خوش نصیبوں کو یہ تمغے بھی ملے ۔نامزدگی کی پالیسی کے بارے میں اُنہوں نے بتایا :  ’’  ہم حکومتِ پنجاب کو  صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی یا دیگر اعزازات کے لئے فن و ثقافت کے میدان کے کچھ  نام بھیجتے ہیں۔ آرٹس کونسل کے علاوہ  صوبوں کی سطح کے تمام سرکاری ثقافتی ادارے  جیسے ریڈیو پاکستان،  پی ٹی وی وغیرہ بھی اپنے اپنے طور پر کچھ  نام بھیجتے ہیں۔ وفاق،  پنجاب کے ساتھ باقی تین صوبوں کے فنکاروں میں  100 سے  150 خوش نصیبوں کو منتخب کرتا ہے۔ سب سے زیادہ نام سندھ سے آتے ہیں۔جو  اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں کا محکمہ ثقافت صحیح طور پر کام کرتا ہے۔15   سے  20 سال قبل فلمی  موسقار جوڑی  وزیر افضل کا نام بھی میں نے ہی بھیجا تھا۔اور وہ اعزاز پانے
 والے خوش قسمت ثابت بھی ہوئے  ‘‘۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے کئی ایک نامور فنکار اور تکنیک کار  انعامات سے محروم رہے۔یہ ہی توہمارے فن کا سرمایہ ہیں۔ نہ جانے سرکاری طور پر کیوں ان کی زندگی میں ان کی قدر نہیں کی جا رہی۔ہمارا کام  اربابِ اختیار کی توجہ دلانا ہے سو وہ ہم کرتے رہیں گے۔گزشتہ کالموں میں ہم نے ریڈیو پاکستان میں زندگی بھر خدمات انجام دینے اور  1965 کی جنگ کے دوران  اکثر مشہور ترین ملی ترانے تیار کروانے والے محمد اعظم صاحب اور ہماری فلمی دنیا میں اپنی بہترین صلاحتیں دکھانے والے حسن عسکری بھائی کے بارے لکھا تھا۔اِن سنہری لوگوں میں صابرہ سلطانہ بھی شامل ہیں جن کا فنی سفر  صابن یا کریم کے اشتہار میںکام کرنے سے شروع ہوا  پھر  ریڈیو پاکستان کراچی سے ڈرامہ بھی کیا۔ اُن کی پہلی فلم  ’’  انصاف  ‘‘ (1960)  سلور جوبلی ہوئی۔ اُس وقت تاریخی فلمیں بہت بنتی تھیں ۔کہا جاتا تھا کہ صابرہ  سلطانہ شہزادی  یا  ملکہ کے کردار کے لئے بہت موزوں ہیں ۔انہوں نے ہیروئن کے ساتھ ٹائٹل رول بھی ادا کئے۔اپنے عروج میں انہیں  ’’  ملکہء حسن   ‘‘  کا خطاب دیا گیا تھا۔ 60 سال سے زیادہ فن کی خدمت کرنے والی  اس نامور فلم اور ٹیلی وژن فنکارہ کو حکومتِ پاکستان نے ابھی تک تمغہء حسنِ کارکردگی سے نہیں نوازا۔ بعینہٖ  محمد اعظم صاحب بھی صابرہ سلطانہ کی مانند  ہر طرح سے اِس تمغے کی نہ صرف اہل بلکہ حق دار ہیں۔ میری  الحمرا لاہور،   پی این سی اے ،  کلچر ڈپارٹمنٹ  اور  وزارتِ اطلاعات و نشریات کے  اربابِ اختیار سے درخواست ہے کہ وہ اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہوئے یہ نیک کام کر کے شکریہ  کا موقع دیں۔ پاکستانی فلمی صنعت کے  نامور  ہدایت کار ،  مصنف اور  فلمساز  پھر  نگار،  گریجوئٹ  اور  بولان  ایوارڈ  یافتہ  حسن عسکری بھائی نے  پاکستان فلمی صنعت میں  52  سال سے  زیادہ کام کیا ۔ اِن کو ایک طرف  تو اپنے شعبے کا ماہر بھی مانا جاتا رہا۔اِن کے کام کی عوامی سطح پر بھی پذیرائی ہوئی  اور سرکاری طور پر بھی دو تین مرتبہ نیشنل فلم ایوارڈ دیا گیا۔ لیکن کتنی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں انہیں اُن کی زندگی میں کبھی اعلیٰ ترین سول اعزاز،  صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی سے نہیں نوازا گیا۔ میں خود یہ ہر سال سوچتا تھا کہ فلم ڈائریکٹر حسن عسکری بھائی ہمارے ملک کے نامور ہنرمند ہیں انہیں صلہ ملنا چاہیے۔ عسکری بھائی نے صاف ستھری فلمیں بنائیں  جیسے اردو فلم  ’’  سلاخیں  ‘‘  (1977) ،   ’’  دوریاں  ‘‘  (1984)،    ’’  بیقرار  ‘‘(1986)،  ’’  تیرے پیار میں  ‘‘ (2000)،  ’’ کنارہ‘‘(1982)،      ’’  جنت کی تلاش  ‘‘ (1999)  وغیرہ۔اِن  فلموں کو  عوام نے پسند کیا اور  انہوں نے بہت بزنس بھی کیا۔ عسکری بھائی نے  ’’  خون پسینہ  ‘‘ (1972)  جیسی با مقصد پنجابی فلم سمیت کئی پنجابی فلمیں بھی بنائیں جیسے  احمد ندیم قاسمی صاحب کے افسانے  ـ’  گنڈاسہ  ‘  پر  بننے والی پنجابی فلم  ’’  وحشی جٹ  ‘‘  (1975)۔پھر   ’’  میلہ  ‘‘ (1986)  اور  ’’  بسنتی  ‘‘  (2008)۔ انہوں نے  جنوری 2021   میں فلم  ’’  تیرے پیار میں  ‘‘  میں تحریکِ آزادیِ کشمیر کو  اجاگر کیا گیا۔فلم  ’’  جنت کی تلاش  ‘‘   قائدِ اعظم رحمۃاللہ  کے  دو  قومی نظریہ کے بارے میں ہے۔ فلم  ’’  سلاخیں  ‘‘  وکٹر ہیوگو  کے ناول پر بنائی گئی۔فلم  ’’  دوریاں  ‘‘  سماجی تفریق سے متعلق ہے۔ فلم  ’’   طوفان  ‘‘ (1976) کے فلمساز بھی عسکری بھائی ہی تھے۔ مشہور واقعہ ہے کہ  مذکورہ فلم سنسر کے لئے دکھلائی جا رہی تھی ۔ وہاں نامور مصنف اشفاق احمد بھی موجود تھے۔ فلم کو دیکھ کر انہوں نے  عسکری بھائی کے لئے بیساختہ کہا کہ یہ تو ہمارے ملک کے   ’  ستیجت رائے  ‘   Satyajit Ray  ہیں۔مجھے خود  ایور نیو فلم اسٹوڈیو میں  نامور فلم ڈائریکٹر دائود بٹ (م)  صاحب نے  ایک واقعہ سنایا  کہ  (غالباََ) 1989   میں اسٹوڈیو کے کسی ہال میں انور مقصور کسی تقریب کے لئے انتظام کروا رہے تھے ۔فاطمہ ثریا بجیا (م)  بھی موجود تھیں۔ عسکری بھائی اُن  سے ملنے گئے تو بجیا نے سب لوگوں کی موجودگی میں کہا کہ میری ذاتی لائبریری  میں صرف ایک پنجابی فلم
 ’’  میلہ  ‘‘  (1986) ہے جو عسکری بھائی کی تھی۔ان کی فلموں کی کامیابی کا تناسب بھی بہت اچھا ہے۔ اِن کا قابلِ فخر کام  آئی ایس پی آر  کے لئے پاکستان کے وجود پر فلم
 ’’  امانت  ‘‘  کابنانا ہے۔جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کیسے معرضِ وجود میں آیا۔یہ فلم آئی ایس پی آر کی لائبریری میں موجود ہے جو  فو جی جوانوں کو دکھائی جاتی ہے۔میرے ذرائع کے مطابق الحمرا آرٹس کونسل کے کیپٹن عطاء نے حسن عسکری بھائی کو  دو مرتبہ صدارتی تمغہ ء حسنِ کارکردگی کے لئے  تجویز کیا تھا لیکن ان کو اعزاز سے محروم رکھا گیا۔ اُن کی فلموں سے متعلقہ کئی افراد نے نام کمایا جیسے ناصر ادیب۔سید نور صاحب نے بھی عسکری بھائی کے لئے لکھا۔ انہوں نے سیف الدین سیف ؔ،  وحید ڈار،  استاد  دامنؔ،
 احمد ؔ راہی،  سیدضمیر جعفری،  مسرورؔ انور،  خواجہ پرویز،  وارث  ؔ لدھیانوی،  احمد فرازؔ،  قتیل ؔشفائی،  حضرت تنویرؔ نقوی،  حزیںؔ قادری اور  ان جیسے بڑے لوگوں کے ساتھ بھی کام کیا۔ اب یہ حسنِ اتفاق ہے کہ حسن عسکری صاحب نے اپنی فلموں کے ذریعے جن فنکاروں کو متعارف کروایا،  ان میں سے بعض کو یہ تمغہ  مل گیا اور  جو  فلم کے پیچھے کھڑا تھا اس کو  محروم  رکھا گیا۔ میری طرح  اور  لوگ بھی یہ پوچھنے میں حق بجا نب تھے کہ جو  افراد  اس تمغہ کے لئے نامزدگیاں بھیجتے رہے کیا وہ فلم ڈائریکٹر حسن عسکری صاحب سے زیادہ تجربہ کار تھے ؟  میں خوش قسمت ہوں کہ عسکری بھائی جیسے نامور لوگوں سے صحبت رہی ۔ میرے حلقے میں بعض ایسے بھی مشہور  لوگ رہے ہیں جو  اس اعلیٰ ترین سول اعزاز  سے محروم رہے  اور  دنیا سے ہی چلے گئے یا پھر انہیں بعد از مرگ یہ اعزاز دیا گیا۔ مثلاََ  ہمارے شاعرمسرورؔ  ؔانور  المعروف مسرورؔ بھائی۔ ان کو بعد از مرگ  ’’  سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم  قدم آباد  تجھے  ‘‘  پر صدارتی تمغہ ء حسنِ کارکردگی اس وقت کے صدر فاروق لغاری صاحب نے دیا۔22  سال تک حکومتِ پاکستان کو علم ہی نہیں ہوا کہ یہ سدا بہار گیت کس نے لکھا  !!  کتنا اچھا ہوتا  اگر حسن عسکری بھائی جیسے گوہرِ انمول کی قدر  ان کی زندگی میں کر لی جاتی !  میری حکومت پاکستان اور متعلقہ شعبہ کے ذمہ د اروں سے کہنا ہے کہ حسن عسکری بھائی جیسے انمول لوگوں کی قدر  ان کی زندگی میں کیوں نہیں کی جاتی ؟  نصف صدی سے زیادہ محنت کرنے کے بعد ان کی زندگی میں یہ  اعزاز  جہاں ان کی عزت افزائی کا باعث  بنتا  وہاں انہیں کچھ مالی آسودگی بھی فراہم کرتا ۔کیا اسلام آباد میں ان انعامات دینے کے فیصلہ ساز چڑھتے سورج کے پُجاری ہیں ؟  جو شخص سورج چڑھا رہا ہے اُس کا علم ہی نہیں!  خلوص اور محنت کس چڑیا کا نام ہے  … ہمارے کارپرداز جانتے ہی نہیں کیوں کہ وہ تو کب کی اُڑ چکی۔ بقول شہزادؔ احمد:  ’  جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی… ‘   آج کوئی ہے جو اپنے کام کو  فرض سمجھ کے کرے  !!    میری  الحمرا لاہور،   پی این سی اے ،  کلچر ڈپارٹمنٹ  اور  وزارتِ اطلاعات و نشریات کے  اربابِ اختیار سے درخواست ہے کہ وہ اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہوئے یہ نیک کام کر کے شکریہ  کا موقع دیں۔ویسے ہمیں یہ ہی نہیں معلوم کہ صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی  دینے کا معیار کیا ہے؟  میری رائے میں اس سب سے بڑے ایوارڈ کا معیار صرف کار کردگی کی مدت ہونا چاہیے۔ کہ کسی  فنکارنے کم از کم 20   سال اپنے شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھائی ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ فعال  فنکار سب کی نظروں میں ہوتے ہیںان کا کام ،  ان کا نام  اور ان کی تصاویر  سماجی رابطوں میںتواتر سے آتی ہیں۔ نیز اعلی حکام کی محافل انہیں مزید قربتیں عطا کرتی ہیں۔ لیکن وہ فنکار جو اپنی زندگی کا بہترین حصہ  فن کی خدمت میں لگا کر اب گوشہ نشین ہیں انہیں ان کا حق ضرور ملنا چاہیے ۔ آرٹس کونسلوں کوچاہیے کہ وہ  فنکاروں کے دو گروپ بنا لیں :  ایک فعال فنکار  دوسرے غیر فعال لیکن اپنے زمانے کے نامور فنکار … تا کہ ہر دو  طرح کے فنکاروں کو ان کا حق مل سکے۔آخر میں حسن عسکری بھائی کی ایک بات بتاتا ہوں انہوں نے مجھے کہا:  ’’   شوق ،  لگن ،  محنت اور  کام سے دیانت داری کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو صلاحیتیں بخشی ہیں اُن کا بھر پور اظہار کیجئے۔اس میں اپنی نجی زندگی کے جو  دوسرے مشاغل ہیں  اُن کو  قُربان کرنا پڑتا ہے۔ آپ کی صلاحیت ایک امانت ہے جس کا آگے منتقل ہونا ایک فرض ہے۔ اور   یہ  زمین جو مادرِ وطن پاکستان ہے  اس کی مٹی سے پیار اور  وفا کریں۔ اسی کی محبت میں سب کچھ ہے  ‘‘۔ حسن عسکری بھائی آپ کو صدارتی تمغہء حسن کارکرکردگی مبارک ہو !!   

ای پیپر دی نیشن

 سکول میں پہلا دن ۔ دیدہ و دل

 ڈاکٹر ندا ایلی آج میری بیٹی کا سکول میں پہلا دن تھا ۔وہ ابھی بہت چھوٹی تھی ۔ مجھے سارا دن بہت پریشانی رہی ۔ پتہ نہیں اس نے ...