ہمارے بعض سادہ دل دانشوروں کا خیال تھا کہ امریکی انتخابی مہم کے دوران وہاں کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا ضمیر اچانک انگڑائی لیکر جاگ جائےگا اور وہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے قتل عام کے پروگرام کو روک دیں گے۔ تاہم اوباما اور مٹ رومنی دونوں نے ان انسانیت سوز اور انصاف کش حملوں پر نادم ہونے کے بجائے انہیں جاری رکھنے کا اعلان کیا۔اس انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام کی حمایت کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ اوباما نے انہیں روزگار کے وسیع تر مواقع دئیے ہیں اور اوباما کی پالیسیاں عوام دوست ہیں۔ امریکہ دنیا میں کیا کرتا پھر رہا ہے۔وہ کیسے اپنی طاقت کے بل بوتے پر خود امریکی آئین اور انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی روایات کی دھجیاں اڑا رہا ہے اس سے بالعموم امریکی ووٹروں نے کوئی خاص سروکار نہ رکھا۔
تاہم اسی امریکہ میں ایسے امریکی بھی ہیں جن کا ضمیر نہ صرف جاگ رہا ہے بلکہ وہ حکمرانوںکی بے ضمیری کیخلاف برسر پیکار ہیں۔ شدت احساس میں جلتے ہوئے ان امریکیوں کی قیادت اس وقت ایک بہادر،جرا¿ت مندانہ اور باہمت امریکی خاتون مے ڈیا بینجمن کر رہی ہیں۔ایک طرف امریکی انتخابی مہم زوروں پر تھی۔ وہ امریکہ کے مختلف شہروں میں جا جا کر امریکی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی تھی کہ امریکی حکومت کی طرف سے پاکستان جیسے ممالک میں ڈرون حملے اُن ملکوں کی خود مختاری اور امریکہ کی تاریخی نیک نامی کے خلاف حملے ہیں۔ امریکی ریاست پینسلونیا کے خوبصورت شہر پٹس برگ میں تھامسن مرٹن سنٹر نے اپنی چالیسویں سالانہ تقریب میں مے ڈیا کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کر رکھا تھا۔تھامسن مرٹن سنٹر امریکہ کے کئی بڑے شہروں میں موجود ہے۔ اس سنٹر کا بنیادی ہدف امریکی شہریوں کی فلاح وبہبود اور اُن کی سماجی بھلائی ہے۔امریکی انتخابی نتائج کے دو روز بعد ہونے والی اس تقریب میں امریکی مہمانوں کے علاوہ پٹس برگ میں مقیم مسلمان بھی مدعو تھے جن میں پاکستانیوں کی بھی بہت بڑی تعداد شامل تھی۔ ڈھلتی عمر کی بہادر امریکی خاتون نے ڈیا بینجمن کاتعلق امریکہ کی ایک انجمن سے ہے جس کی وہ نائب صدر ہیں۔اس انجمن کا نام گلوبل ایکسچینج اور کوڈ پنک ہے۔کوڈپنک امریکی خواتین کی مشہور تنظیم ہے جس کی شاخیں ہر شہر میں موجود ہیں۔تھامس مرٹن اور کوڈ پنک دونوں تنظیمیں جنگوں کے سخت خلاف ہیں اور وہ عالمی امن کیلئے کوشاں ہیں۔ شیرٹن ہوٹل پٹس برگ کا وسیع و عریض ہال امریکی و مسلم مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مہمانوں کی اکثریت کا تعلق اوباما کی پارٹی ڈیمو کریٹ سے تھا۔اس کے باوجود مے ڈیا نے جرا¿ت اظہار کی شاندار مثال قائم کی۔
مے ڈیا بینجمن نے کہا کہ امریکہ نے معصوم انسانوں کو مارنے کا آسان طریقہ دریافت کرلیا ہے اور یہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ڈرون حملے ہیں جن میں نہ فوجی بھیجنے پڑتے ہیں نہ توپ اور ٹینک۔ امریکی حکومت نے ساری دنیا میں قتل عام کا پروگرام شروع کر رکھا ہے۔وہ پاکستان، صومالیہ اور یمن میں ڈرون حملوں کے ذریعے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔مے ڈیا نے پوری ذمہ داری سے کہا کہ گزشتہ دو تین برس میں پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے امریکہ نے 3000 افراد قتل کئے۔ ان میں صرف 49 اصل ہدف تھے۔ان انچاس افراد کے خلاف بھی کوئی ثبوت نہ تھا کوئی شہادت نہ تھی۔بینجمن نے اپنی تقریر میں حاضرین کو بتایا کہ وائٹ ہاﺅس میں منگل کا دن دہشت گردوں کے خلاف فیصلے کا دن ہوتا ہے۔ اس روز صدر اوباما ہی مدعی ہوتے ہیں، وہی منصف ہوتے ہیں اور وہی جیوری،مے ڈیا کی باتیں دل میں چھید کرنے والی تھیں۔ انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا کہ وہاں اُن کی ملاقات ایک تعلیم یافتہ شخص سے ہوئی جس نے بتایا کہ اس کا سارا خاندان ڈرون حملے میں قتل کردیا گیا۔ قتل ہونے والوں میں اس کا ایک بھائی بھی شامل تھا جس کے 200 شاگردوں کو اسی طرح کے ڈرون حملے میں لقمہ¿ اجل بنادیا گیا۔اس سارے علاقے میں لوگوں پر دہشت طاری رہتی ہے وہ خوف و ہراس میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر وقت اُن کے سروں پر ڈرون منڈلا رہے تھے یہ ڈرون کہیں بھی کسی وقت ان لوگوں کے گھروندوں کو اپنے مکینوں سمیت قبرستان میں بدل سکتے ہیں۔انہیں اس جرگے کا حال بھی سنایا گیا جہاں 42 اشخاص قیام امن کیلئے سرجوڑ کر بیٹھے تھے کہ اچانک ڈرون حملے کے ذریعے ان سب کے چیتھڑے اڑا دئیے گئے۔بینجمن نے کہا کہ ڈرون حملوں کی بناءپر ہرچار میں سے تین پاکستانی امریکہ سے نفرت کرتے ہیں۔
بینجمن نے ہمہ تن گوش امریکیوں کوبتایا کہ اسرائیل ایران کے خلاف جنگ شروع کرناچاہتا ہے۔بینجمن نے کہا کہ اب مشرقِ اوسط میں کوئی اور جنگ شروع نہیں ہونی چاہئے۔اگر امریکہ مشرق اوسط کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک خطہ دیکھناچاہتا ہے تو وہ انصاف کی بنیاد پر مسئلہ فلسطین حل کرائے اور اسرائیل کے 200 ایٹمی ہتھیاروں کو تباہ کردے۔اس پر ہال میں موجود سارے امریکی و پاکستانی اور عرب سامعین نے کھڑے ہوکر تادیر تالیاں بجائیں اور بینجمن کے بیان کا بھرپور خیر مقدم کیا۔بینجمن نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ عراق،افغانستان کے بعد ایران میں قتل و غارتگری کا خیال دل سے نکال دے اور خلوصِ نیت کے ساتھ امن کو موقعہ دے۔ ہمیں اس تقریب کی ویڈیو فلم ای میل کے ذریعے اسی روز پٹس برگ سے ایک صاحبِ دل پاکستانی نے بھیج دی تھی۔اس موقع پر پاک، امریکہ ایسوسی ایشن پٹس برگ کے صدر ڈاکٹر بلال حسین کا خیر مقدمی بیان سٹیج سیکرٹری نے پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے مے ڈیا بینجمن کی جرا¿ت و بہادری کی بہت تعریف کی اور بتایا کہ پاکستان میں یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق اور انسانوں کیلئے عدل و انصاف پر یقین رکھنے والی امریکی قوم اپنے حکمرانوں کو قتل و غارت گری کا یہ کھیل بند کرنے پر مجبور کیوں نہیں کرتی۔ ڈاکٹر بلال نے تھامس مرٹن سنٹر کا بھی بہت شکریہ ادا کیا جنہوں نے مے ڈیا کو مدعو کیا اور انہیں امن کا ایوارڈ پیش کیا بلاشبہ وہ اس اعزاز کی مستحق ہیں۔ تقریب کے اختتام پر مے ڈیا بینجمن سب سے پہلے پاک امریکہ ایسوسی ایشن کی میز پر آئیں انہوں نے بیگم عبید بلال کو گلے لگایا اور اپنی پذیرائی پر اہل پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے اپنی کتاب ” ڈرون حملے اور ہماری ذمہ داریاں“ اپنے دستخط کے ساتھ ڈاکٹر بلال حسین کو پیش کیں۔
امریکہ کی بعض انجمنیں اور یونیورسٹیاں ڈرون حملوں کے خلاف بہت سا علمی و عملی کام کر رہی ہیں۔نیویارک یونیورسٹی اور سٹینفورڈ یونیورسٹی دونوں کے شعبہ¿ قانون میں ڈرون حملوں کے بارے میں اس وقت تک جو تحقیقی کام ہوا ہے اس کے مطابق پاکستان میں ان حملوں میں مارے جانے والے 98 فیصد لوگ بیگناہ ہوتے ہیں۔اُن کے تحقیقی مقالات کا عنوان ہے:
Living under Drone: Death, Injury and Trauma to civilians in Pakistan
مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کی کتنی یونیورسٹیاں، تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں اس طرح کا تحقیقی کام کر رہی ہیں۔یہ تحقیقی کام کہ کس حملے میں مرنے والے کون کون تھے اُن کا کیا قصور تھا۔ اب تک امریکی ڈرون حملوں سے پاکستانی عوام کا کتنا جانی و مالی نقصان ہوا۔مرنے والوں کے خاندانوں پر کس کس طرح قیامت گزری۔ پاکستانی پارلیمنٹ کی بے جان اور مردہ قراردادوں کا امریکہ نے کیا حشر کیا۔ یہ ڈرون حملے پاکستانی حکومت کی مرضی سے پاکستانی سرزمین سے کئے جارہے ہیں۔ پاکستانی حکومت عوام سے کیا کیا چھپا رہی ہے اور درپردہ امریکہ سے کیا کیا ساز باز کر رہی ہے۔اسی طرح پاکستان کی کتنی سیاسی جماعتیں دنیا کے مختلف ممالک میں سیمینار منعقد کرکے ڈرون حملوں کی صورت میں قتل و غارتگری اور ریاستی دہشت گردی کے اس کھیل کو آشکار کر رہی ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق کوئی ایک جماعت بھی یہ کام نہیں کر رہی۔ یہاں مجھے معروف کالم نگار اور تجزیہ نگار اور اپنے نظریاتی ہم سفر لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم کی سادگی¿ دل پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ اب بھی اوباما سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنی دوسری ٹرم میں مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھیں گے اور دوسری قوموں کو جینے کا حق دیں گے۔جنرل صاحب! دستِ سوال پھیلانے سے کوئی طاقتور قوم کسی کو جینے کا حق نہیں دیتی آپ نے یہ حق جرا¿ت و حکمت سے خود لیناہوتا ہے ہمیں حیرت ہے کہ ہمارے اہلِ علم و دانش پوچھتے ہیں کہ ہمارا جرم کیا ہے۔علامہ اقبالؒ ہمار ا جرم ہمیں بتا گئے ہیں۔
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات تاہم مے ڈیا بینجمن جیسی بہادر امریکی خاتون کو ڈرون حملوں کے خلاف پاکستانی جنگ لڑنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024