حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد‘ حقانی 3 ہفتے میں نہ آئے تو جبراً لائیں گے: چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت )+ آن لائن)سپریم کورٹ نے میمو کمشن کیس میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی حاضر ی سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں تین ہفتوں میں عدالت میں پیش ہونے کاحکم دےدیا۔ عدالت نے آخری موقع دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر وہ عدالت میں پیش نہ ہوئے تو نہ صرف ان کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی جائےگی بلکہ جبری طریقے سے ملک میں واپس لایا جائے گا‘ عدالت کے پاس پاسپورٹ منسوخی سمیت کئی آپشن موجود ہیں۔ حسین حقانی کے وکیل دو ہفتے میں اپنے موکل کی واپسی سے عدالت کو آگاہ کریں۔ حکم نامے کی کاپی امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے کو بھجوائی جائے۔ یہ حکم پیر کے روز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کے بعد جاری کیا ہے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل عرفان قادر اور درخواست گزار کی وکیل عاصمہ جہانگیر پیش ہوئیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے حکم کے مطابق ان کی سربراہی میں سیکرٹری داخلہ اور عاصمہ جہانگیر کی مشترکہ میٹنگ ہوئی تھی جس میں انہیں آگاہ کیا گیا کہ حسین حقانی کی پاکستان واپسی کے دوران انہیں فول پروف سکیورٹی دی جائے گی۔ ائرپورٹ سے ہوٹل تک ہیلی کاپٹر فراہم کیا جائےگا۔ انکی رہائش اور تمام علاقے کو سکیورٹی اداروں کے حصار میں رکھا جائےگا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی جانب سے سکیورٹی اقدام قابل تعریف ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ سکیورٹی کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود حقانی کو تحفظات ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ آخر ایسی کیا آفت آن پڑی ہے کہ ان کی پاکستان میں ضرورت ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حسین حقانی بیان حلفی دے کر گئے تھے کہ چار ہفتوں میں واپس آئیں گے اب چار ہفتے تو کیا کافی وقت گزر گیا ہے لیکن حسین حقانی واپس نہیں آرہے۔ حسین حقانی کو اپنے بیان حلفی اور عدالت حکم کا احترام کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ حسین حقانی کو ہم نے بہت موقع دے دیا ہم مزید وقت نہیں دیں گے۔ وہ ملک میں آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے۔ ملک میں جمہوری نظام ہے‘ ادارے کام کررہے ہیں کسی کو اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ حکومت جتنی سکیورٹی دے سکتی تھی دے رہی ہے۔اس پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ حسین حقانی کو حاضری سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تاہم عدالت نے یہ استدعاءمسترد کردی اور حکم نامہ تحریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر حسین حقانی دو ہفتوں میں واپس نہ آئے تو ان کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائےگی۔ عدالت کے پاس پاسپورٹ منسوخی سمیت کئی آپشن موجود ہیں۔ ہم نے بار بار موقع دیا تاہم اگر حسین حقانی سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ حسین حقانی مرضی سے نہ آئے تو انہیں جبری طور پر واپس لائیں گے۔ عدالت نے حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کو ہدایت کی کہ وہ دو ہفتوں میں اپنے موکل سے رابطہ کرکے ان کی واپسی کے حوالے سے عدالت اور اٹارنی جنرل کو آگاہ کریں۔ علاوہ ازیں عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی مذکورہ حکم نامے کی کاپی امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے کو بھی بھجوائی جائے۔ عدالت نے حسین حقانی کو عدالت میں پیش ہونے کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت تین ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سکیورٹی کے باوجود حقانی نہیں آیا وہ بیمار ذہنت کا آدمی ہے ۔ حقانی نفسیاتی معالج سے علاج کروائیں جبکہ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ حسین حقانی کو وطن واپسی پر وی آئی پی سکیورٹی فراہم کی جائےگی جبکہ حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ تمام یقین دہانیوں سے حسین حقانی کو آگاہ کر دیا مگر انہیں حکومت پر اعتماد نہیں۔ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ عدالت حسین حقانی کے نفسیاتی معائنہ کا حکم دے ۔ حقانی سخت نفسیاتی دباﺅ کا شکار ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج تک عدالت نے کسی کو غیر قانونی طریقہ سے جیل نہیں بھیجا ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ حسین حقانی نفسیاتی معالج سے علاج کروائیں ۔ عدالت ان کے نفسیاتی معائنہ کا حکم نہیں دےگی۔