وفاقی بجٹ کی آمد، قومی اقتصادی کو سل کا اجلاس  اور سٹیٹ ب ک کی رپورٹ

وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت قومی اقتصادی کو سل کا اجلاس ہواجس میں ائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار، وفاقی وزراء، وزیرِ اعلیٰ پ جاب مریم واز، وزیرِ اعلیٰ س دھ سید مراد علی شاہ، وزیرِ اعلیٰ خیبر پختو خوا علی امی گ ڈا پور، وزیرِ اعلیٰ بلوچستا سرفراز بگٹی، صوبائی وزیرِ پ جاب برائے م صوبہ ب دی و ترقی مریم اور گزیب، مشیرِ وزیر اعلیٰ خیبر پختو خوا مزمل اسلم،گور ر اسٹیٹ ب ک جمیل احمد اور متعلقہ اعلی وفاقی و صوبائی حکام ے شرکت کی۔ وزیرِ اعظم ے کہا کہ ملک کی ترقی، معیشت کی بحالی اور عوامی کی خوشحالی کیلئے حکومت موجودہ وسائل کا بہتری استعمال یقی ی ب ائے گی۔ن
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہو ے والا قومی اقتصادی کو سل کا اجلاس ہایت اہمیت کا حامل ہے۔ آج قومی بجٹ بھی پیش کیا جا رہا ہے۔شہباز شریف چاروں صوبوں کو ساتھ لے کے چل رہے ہیں۔ آج کے اجلاس میں خیبر پختو خوا کے وزیراعلیٰ علی امی گ ڈا پور ے اپ ی اقتصادی ٹیم کے ساتھ شرکت کی۔سیاسی اختلافات اپ ی جگہ لیک ورک گ ریلیش شپ کا ہو ا ضروری ہے۔اسی کا ادراک طرفی کی طرف سے کیا گیا۔خیبر پختو خوا صوبے کی طرف سے اپ ا بجٹ پیش کیا جا چکا ہے دیگر صوبوں کے بجٹ مرکزی بجٹ کے بعد پیش کیے جائیں گے۔اپ ے اپ ے صوبوں کے بجٹ کے حوالے سے اجلاس میں جو تجاویز رکھی گئیں اور ج ضروریات کا اظہار خیبر پختو خوا کی طرف سے کیا گیا ا کو پورا کر ے کے لیے وزیراعظم کی طرف سے یقی دلایا گیا۔
پاکستا ب یادی طور پر زرعی ملک ہے پاکستا میں معاشی بدتری بحرا آتے رہے لیک پاکستا کی معیشت کو کسا ے زمی بوس ہیں ہو ے دیا۔اجلاس کے دورا وزیرِ اعظم ےکہا کہ زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زراعت اور دیگر شعبوں کے حوالے سے صوبوں کی تجاویز کو پلا میں شامل کیا جائیگا۔ زراعت کے حوالے سے صوبوں کی تجاویز کو بجٹ کا حصہ ب ا دیا جاتا ہے توپاکستا اج اس میں مزید خود کفیل ہو ے کے ساتھ ساتھ ایکسپورٹ کر ے کی پوزیش میں بھی ہوگا ،گ دم چاول گ ا کی چ د سال سے بمپر پیداوار ہورہی ہے ا میں مزید اضافہ سےپاکستا خودا حصاری کی طرف پیش رفت کرتا ہوا ظر آئے گا۔
ا±دھر سٹیٹ بی ک ے ما یٹری پالیسی کا اعلا کیا ہے۔ بی ک ے شرح سود میں 4 سال بعد کمی کرتے ہوئے 20.5 فیصد پر مقرر کر دی‘ پہلے یہ 22 فیصد تھی۔ شرح سود میں 150 بیسس پواءٹس کمی کی گئی ہے۔سود کو اللہ کے خلاف ج گ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں کمی کی ہیں بلکہ مکمل خاتمے کی ضرورت ہے۔ما یٹری پالیسی میں مزید کہا گیا ہے کہ افراط زر مئی میں 11.8 فیصد رہی جبکہ مہ گائی تیزی سے کم ہوئی۔ عمومی مہ گائی، جو اپریل میں 17.3 فیصد تھی، گر کر مئی 2024ءمیں 11.8 فیصد رہ گئی۔ مہ گائی میں کمی کی وجہ سخت زری پالیسی کا تسلسل، گ دم اور غذائی اشیاءکی قیمتوں میں کمی ہے جبکہ توا ائی کی سرکاری قیمتوں میں کی جا ے والی تخفیف سے بھی افراط زر کم ہوا۔حکومت مہ گائی میں کسی قدر کمی کا کریڈٹ بھلے لے، آٹے اور روٹی کی قیمت ضرور کم ہوئی ہے لیک یہ کسا کے استحصال کی قیمت پر کم ہوئی ہے۔گ دم کی 39 سو روپے فی م قیمت مقرر کی گئی تھی کسا تی ہزار سے بھی کم میں فروخت کر ے پر مجبور ہیں۔
توا ائی کی قیمتوں میں کمی کی بات کی جاتی ہے تو یہ بھی آدھا سچ ہے۔ پٹرولیم مص وعات کی قیمتیں کم ہوئی ہیں جبکہ بجلی کی قیمتیں اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھا دی جاتی ہیں۔اسی پالیسی میں اعتراف کیا گیا ہے کہ بجٹ اقدامات، بجلی اور گیس کے رخوں میں تبدیلی سے مہ گائی کے م ظر امے کو خطرہ ہے۔ساتھ ہی خبردار کیا گیا ہے کہ جولائی 2024ءمیں مہ گائی کی موجودہ سطح میں مایاں اضافے کا خطرہ ہے۔
 ایک طرف مہ گائی کے ہاتھوں عوام عاجز آچکے ہیں‘ ا کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول وبال جا ب ا ہوا ہے دوسری جا ب حکومت اربوں روپے کے ترقیاتی م صوبوں کی م ظوری دیکر عوام میں مقبولیت حاصل کر ے کی کوشش کر رہی ہے۔ عام آدمی کو ترقیاتی م صوبوں سے اسی وقت دلچسپی ہو سکتی ہے جب اسے حقیقی ریلیف دیکر اس کیلئے اپ ے خا دا کی کفالت آسا ب ائی جائے۔ گزشتہ د وں آئی ایم ایف بھی حکومت سے ترقیاتی م صوبوں کی تفصیل طلب کر چکا ہے‘ بے شک آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ م اسب ہیں‘ اس سے پاکستا کی آزادی اور خودمختاری داﺅ پر لگتی ظر آتی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک طرف ملک میں ہ معاشی استحکام ہے اور ہ معیشت اپ ے پاﺅں پر کھڑی ہو پا رہی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ گزشتہ صف صدی سے عوام کی کسمپرسی پر کوئی توجہ ہیں دی جا رہی۔ بجٹ کی آمد آمد ہے ‘ آئی ایم ایف کے اہداف کی تلوار الگ سر پر لٹک رہی ہے‘ اعدادو شمار کے گورکھ دھ دے میں عوام کی مزید کیا درگت ب ے گی‘ عوام بجٹ سے پہلے ہی خوفزدہ ہیں۔پاکستا کا بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا جا رہا ہے جب آئی ایم ایف سے ایک بڑے قرض پروگرام کیلئے مذاکرات جاری ہیں۔ پاکستا کے ماضی میں پیش کئے جا ے والے بجٹ بھی آئی ایم ایف پروگرام میں رہ کر ہی پیش کیے گئے لہٰذا آج کا بجٹ بھی آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت کی پیش کیا جائیگا جس میں خدشہ یہی ہے کہ عوام کی مشکلات اور مہ گائی کے خاتمے کو ظر ا داز کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے سٹیٹ ب ک کی رپورٹ درست ظر آتی ہے جس میں ماہ جولائی میں مہ گائی مزیدبڑھ ے کا ا دیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ترقیاتی م صوبے اور آئی ایم ایف کی شرائط اور اہداف اپ ی جگہ‘ بجٹ میں عوام کو ہر ممک ریلیف دیکر ہی حکومت عوام میں مقبولیت حاصل کر سکتی ہے۔
آج پیش کئے جا یوالے بجٹ سے عوام کو امیدوں سے بھرپور توقعات ہیں کہ حکومت عوام کے لیے چاہے تو بہت کچھ کر سکتی ہے اور اس پوزیش میں بھی ہے۔بتایا گیا تھا کہ چی پاکستا میں 15 ارب ڈالر ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دس دس ارب ڈالر، ایرا آٹھ ارب ڈالر اور اسی طرح ترکیہ اور قطر بھی پاکستا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔حکومت اس سرمایہ کاری کے ثمرات عوام تک پہ چا ے کی کوشش کرے تو عوام کو بہت بڑا ریلیف مل سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن