سکندر اعظم نے کیا خوب کہا تھا کہ میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایااور میرا اُستاد مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ دنیا میں جن ملکوں نے اُستاد کو عزت، احترام اور معاشی خوشحالی دی وہ ترقی کی تمام حدوں کو پار کر گئے اور اسکے ساتھ صحت، صفائی، قانون کا احترام، انصاف، باہمی اتفاق میں یکتا ہو گئے۔ وہاں لوگوں میں اور استادوں میں تعلیم دینے اور تعلیم کے حصول کا جنون ہوتا ہے جس کی بدولت وہاں تعلیم سو فیصد ہو گئی ہے۔ وہاں کی لیبارٹریاں، ہسپتال اور سائنسی ادارے اپنی اعلیٰ تعلیم کی بنیاد پر ہر وقت نئے نئے تجربات اور نئی نئی ایجادات کر کے دنیا کو حیران کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے استاد کسمپرسی، معاشی پسماندگی اور معاشرے میں عزت و وقار کی تلا ش میں ہیں۔جرمنی کی آئرن خاتون اینجلا مرکل جو سادگی، حب الوطنی، خلوص و محبت کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ اسکی ایک مثال جب اس خاتون کے سامنے ڈاکٹرز کی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ آیا تو انہوں نے اُستادوں کی تنخواہ پوچھی تو پتہ چلا کہ اُنکی تنخواہ ڈاکٹرز کی تنخواہ سے کم ہے۔ اس پر انہوں نے کہا۔ کیا مذاق ہے کہ جو اُستاد ان کو ڈاکٹر بناتے ہیں ان کی تنخواہ کم ہو اور ان ڈاکٹروں کی تنخواہ اُستادوں سے زیادہ ہو یہ میں نہیں مانتی۔بقول اشفاق احمد وہ اٹلی میں جب تعلیم دیتے تھے تو اُنکے سکوٹر کا چالان ہو گیا۔ جب وہ عدالت میں چالان بھرنے گئے تو جج نے اُن کا پیشہ پوچھا۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ میں ایک استاد ہوں تو عدالت میں کہرام مچ گیا کہ ’’ٹیچر اِن دی کورٹ، ٹیچر اِن دی کورٹ۔‘‘ علامہ مشرقی بھی انہی اُستادوں کے تعلیم یافتہ تھے جنہوں نے سوالنامے میں درج دس سوالوں میں سے کوئی سے پانچ حل کرنے کا کہا گیا تھا اور انہوں نے دس کے دس حل کر کے لکھ دیا کہ کوئی سے پانچ چیک کر لو۔آج اُستادوں میں دلجمعی سے بچوں کو تعلیم دینے کا جذبہ مفقود ہو چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اُستادوں کو عزت، احترام اور مقام دے کر معاشرے میں اوپر لایا جائے۔ ہر روز اربوں روپے کے فراڈ اور نقصانات کا سنتے ہیں۔ اگر استادوں کی تنخواہ تین چار گنا بڑھا دی جائے تو منافع میں گھاٹا پڑ سکتا ہے لیکن قوم کی تعمیر نو ہو جائیگی۔اُستادوں سے بھی ایک درخواست ہے کہ وہ بھی اُستاد بنیں۔ مانا کہ ملک میں چار پانچ نظام تعلیم ہیں تو پڑھائی کے معیار بھی چار پانچ ہیں۔ پاکستان میں بھی یورپی اساتذہ اور بعض پاکستانی اساتذہ بھی کلاس میں موجود ہر بچے کا نام، اُنکے والدین، بچے کی پڑھائی اور اُسکو درپیش مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ہمارے یہاں ہزاروں اُستاد کبھی سکولوں میں نہیں جاتے۔ صرف ان کو تنخواہ لینے کا پتہ ہے۔ یہ جعلی اساتذہ ایک مجرمانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ انگریز دور میں چونکہ اقتدار مسلمانوں سے چھینا گیا تھا۔ انگریزوں کے دل میں بدلا اور ہندوئوں کے دل میں غصہ اور دشمنی تھی جس کی وجہ سے سب سے پہلے مسلمانوں کا تعلیم سے رابطہ ختم کیا گیا۔ اُن کو معاشی اور سیاسی طور پر کمزور کرنے کیلئے اُن کو بڑی نوکریوں کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ سرسید احمد خان کو جب اس بات کا احساس ہوا اور انہوں نے دور تک نگاہ دوڑائی اور اللہ کا نام لے کر علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تو مسلمانوں کے جسم میں محدود حد تک تعلیمی خون کی گردش شروع ہوئی۔ مسلمان نہ تو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، نہ معاشی طور پر مستحکم تھے۔ وہ انگریزوں کے ساتھ کلرک بنے، سکولوں میں استاد بنے۔ انہوں نے انگریزوں کی قربت میں رہتے ہوئے اُنکے کردار اور کام کرنے کے طریقوں پر غور کیا اور اُن کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی اور اتنے قابل کر دئیے کہ وہ مقابلے کے امتحانوں آئی سی ایس میں اعلیٰ پوزیشنیں لینے میں کامیاب ہو گئے۔ ان آئی سی ایس افسروں کی اکثریت نے پاکستان بننے کے بعد اپنی خداداد صلاحیتوں،جوہر قابل، خلوص، جذبہ ایمانی، ایمانداری اور حب الوطنی کے ساتھ1964ء تک اردگرد کے ممالک کی صف میں پاکستان کو درجہ اول پر فائض کر دیا۔میں پھر کہوں گا کہ ہمارے پاس محب وطن بیوروکریٹس ایک بہت بڑا سرمایہ تھے۔ اُنکے کارنامے دیکھو کہ 1960ء سے لیکر 1980ء تک پاکستان ایشیاء کا فاسٹ گروئنگ ملک سمجھا جاتا تھا اور مستقبل کی معاشی پاور بھی تھا۔ اس کے ساتھ ہی 1965ء سے 1985ء تک کا 25 سالہ پلان بنایا گیا جس کے تحت 1985ء میں پاکستان کے عوام کا معیارِ زندگی جاپان کے لوگوں جیسا اور فی کس آمدنی بھی اُن سے زیادہ کرنی تھی۔ اس کامیابی کا کریڈٹ ڈاکٹر محبوب الحق کو جاتا ہے۔ اب دیکھیں کہ ڈاکٹر محبوب الحق صاحب ایک اُستاد کے بیٹے تھے۔ اُن کا احترام دنیا کرتی تھی۔ وہ محسن پاکستان تھے۔ ڈاکٹر محبوب الحق کے منصوبے لیکر کوریا کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے اور ہم ابھی تک منزل سے ہٹ کر بارہ ٹہنی کھیل رہے ہیں۔1964ء تک ذرا استاد کی عزت، ادب و احترام کا یہ عالم تھا کہ سابق ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل فاروق بیدار سٹوڈنٹ یونین کے جنرل سیکرٹری تھے۔ انہوں نے کالج میں فیسوں میں کمی کیلئے زبردست احتجاج شروع کیا۔ گرما گرم تقریریں جاری تھیں اور پُرجوش نعرے لگ رہے تھے کہ اُدھر سے کالج کے پرنسپل جناب حمیداحمد خان مرحوم آگئے۔ لڑکوں نے شورمچا دیا کہ پرنسپل صاحب تقریر کریں۔ حمید احمد خان صاحب سٹیج پر آئے اور اپنی تقریر میں سٹوڈنٹ کے سارے مطالبوں کی حمایت کر دی اور ان مطالبات میں یہ کہہ کر ایک مطالبے کا اضافہ کر دیا ۔ چونکہ اسلامیہ کالج کے لڑکے اب عاقل و بالغ ہو گئے ہیں لہٰذا اب میری یہاں کوئی گنجائش نہیں اور میرا بھی استعفیٰ قبول کیا جائے۔ احتجاجی ماحول یکدم سوگوار ہو گیا۔ لڑکے منتیں کرنے پر آگئے کہ آپ اپنا استعفیٰ واپس لیں۔ اس پر انہوں نے انکار کر دیا تو لڑکوں نے رو رو کر اور منت سماجت کرکے انہیں استعفیٰ واپس لینے پر راضی کیا۔ سول سیکرٹریٹ میں ہمارے بینک کی برانچ تھی میں اپنی برانچ کے باہر کھڑا تھا۔ بالکل سامنے آئی جی پنجاب کا آفس تھا جہاں درجنوں پولیس والے ڈسپلنری کیسز کے سلسلے میں حاضر ہوتے تھے۔ محترم ڈاکٹر نذیر احمد خان سائیکل پر باہر جا رہے تھے کہ سامنے سے اُس وقت کے آئی جی پنجاب لئیق احمد خان آرہے تھے۔ انکی نظر جیسے ہی ڈاکٹر صاحب پر پڑی۔ گاڑی سے اُتر کر ڈاکٹر صاحب کی طرف آوازیں لگاتے ہوئے دوڑ پڑے۔ درویش استاد کی بے نیازی دیکھیں کہ آئی جی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو ایک کپ کافی پینے کی درخواست کی لیکن درویش ڈاکٹر نے انتہائی بے اعتنائی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پھر کبھی صحیح اور چل پڑے۔ یہ تھی اُستادوں کی عزت۔
٭…٭…٭
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024