وزیر اعظم بھارت من موہن سنگھ نے کہا کہ ہم پاکستان کو سبق سکھائیں گے۔ ہاں‘ سبق سکھا سکتے ہیں کیونکہ جب سیاں ہوں کوتوال‘ یہی فریاد ہم بار بار کر رہے ہیں کہ دشمن کی پہچان کی جائے۔ حضرت قائد اعظمؒ کے فرمان کے مطابق ہمارا کوئی بھی اخلاقی‘ سیاسی‘ قومی لائحہ عمل‘ ضابطہ حیات اور فلسفہ کارآمد نہیں سمجھا جا سکتا‘ جب تک ہم اپنے ازلی‘ ابدی دشمن کا ادراک نہیں رکھیں گے۔ حضرت قائد اعظمؒ نے دشمن کے حوالے سے ہر لمحہ وضاحت فرما دی ہے۔ حیرت ہے کہ فاٹا اور سوات کے علاقوں میں جتنا بھی اسلحہ برآمد ہو رہا ہے وہ بھارتی اسلحہ ہے پاکستان اور افغانستان کے بارڈر پر 52 بھارتی ٹریننگ کیمپس ہیں جو پاکستان میں بم دھماکوں کے ذمہ دار ہیں۔ بروز پیر بتاریخ 7 دسمبر پونے 9 بجے مون مارکیٹ علامہ اقبال ٹا¶ن میں بم دھماکے سے 61 افراد شہید اور 138 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ پاکستان کی قوم کے سینے پر اور کتنے زخم اور کتنی شہادتیں وقوع پذیر ہوں گی۔
ممبئی دھماکے بھارتی تاریخ میں انتہائی خطرناک دہشت گردی کی غمازی کرتے ہیں۔ اس کی مجاہدین دکن نے ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ بعض رپورٹیں آتی رہیں کہ مالیگا¶ں کا کوئی انتہا پسند گروہ یا دہشت پسند جماعت ملوث ہو سکتی ہے لیکن اس کی وضاحت ابھی تک نہیں ہو سکی۔ قصہ یہ نہیں ہے کہ بھارتی دھماکوں کو کوئی اہمیت دی جائے۔ پاکستان ایک عرصے سے دھماکوں کا ٹارگٹ ہے جب تک ہمارے حکمران ہوش کے ناخن نہیں لیں گے اس وقت تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی پوری دنیا مین سکہ رائج الوقت بن چکی ہے۔ زیردست قومیں اور گروہ اپنے مطالبات کے حوالے سے عدم توجہی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان انتہائی اقدامات پر اتر آتے ہیں لیکن بھارت کا بلاسوچے سمجھے اس کا رروائی کا الزام پاکستان پر لگانا خالصتاً دشمنی‘ عناد اور نفرت ہے ہمارے پاک افواج کے افسران بالا اور سپاہی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ اور پوری قوم اپنی افواج کے جانبازوں کو سیلیوٹ پیش کرتی ہے۔
ہندوستان کے ہندو¶ں کے دہشت پسندانہ گروہوں نے ہر صدی میں خونین ڈرامے رچائے ہیں خواہ وہ ہندو¶ں کے اپنے ہی شہری کیوں نہ ہوں۔ راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ مشہور زمانہ دہشت گرد تنظیم رہی ہے جو ابھی تک موجود ہے۔ وشوا ہندو پریشد‘ بجرنگ دل اور دیگر خطرناک دہشت پسند تنظیموں نے ہمیشہ خونیں کارروائیاں کی ہیں اور آج تک بھارت کے اچھوتوں کو معاف نہیں کیا جن کی اب بھی بھارت میں 25 کروڑ آبادی ہے۔ جو ظلم و ستم کشمیری مسلمانوں پر ہو رہا ہے۔ اس کا بدلہ تو بھارت کو اپنے گھر میں چکانا ہی پڑے گا۔ اخبارات آئے روز مہاراشٹر‘ احمد آباد‘ لکھن¶‘ ممبئی‘ مدھیہ پردیش‘ الہ آباد‘ بنارس اور اجودھیا میں دہشت گردی کے احوال سے بھری پڑی ہیں۔ مسلمانوں کو بھارت میں زندہ جلایا جا رہا ہے ان کی دکانیں‘ ان کا گھربار جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے۔ اب اگر بھارت کو دہشت گردی کا مفہوم سمجھ آیا ہے تو اپنا رویہ تبدیل کرے ورنہ اب تو آغاز ہو چکا ہے کہ بھارت کا انجام کیا ہو گا؟ یہ ہمیں نظر آ رہا ہے کہ بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے ہیں جس کی ابتداءہو چکی ہے۔ اچھوتوں‘ عیسائیوں‘ اور دلتوں پر جو کچھ بیت رہی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی عورتیں اغواءہو رہی ہیں‘ ان کے گھر بار جلائے جا رہے ہیں۔ ان کی عورتوں کی آبرور ریزی ہو رہی ہے۔ بھارت کے عصرِ حاضر میں تقریباً 24 علیحدگی پسند گروہوں نے علیحدگی پسندی کے لئے اعلانات کر رکھے ہیں لہٰذا جلد یا بدیر بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوں گے۔
پاکستان میں سیکورٹی کو ہائی الرٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ دکن مجاہدین کا مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم بند کیا جائے۔ ان کا قتل عام بند کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے فوج واپس لائی جائے وگرنہ یہ دھماکے اور زور شور سے جاری رہیں گے۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان دھماکوں کے پس منظر میں کوئی بین الاقوامی سازش بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ ممبئی دھماکوں میں انتہا پسند ہندو¶ں کی اپنی کارروائی شامل ہے لیکن کمال ہے کہ الزام پاکستان پر عائد کیا جاتا ہے۔
باش مانند خلیل اللہ مست!
ہر کہن بت خانہ راباید شکست!
ممبئی دھماکے بھارتی تاریخ میں انتہائی خطرناک دہشت گردی کی غمازی کرتے ہیں۔ اس کی مجاہدین دکن نے ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ بعض رپورٹیں آتی رہیں کہ مالیگا¶ں کا کوئی انتہا پسند گروہ یا دہشت پسند جماعت ملوث ہو سکتی ہے لیکن اس کی وضاحت ابھی تک نہیں ہو سکی۔ قصہ یہ نہیں ہے کہ بھارتی دھماکوں کو کوئی اہمیت دی جائے۔ پاکستان ایک عرصے سے دھماکوں کا ٹارگٹ ہے جب تک ہمارے حکمران ہوش کے ناخن نہیں لیں گے اس وقت تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی پوری دنیا مین سکہ رائج الوقت بن چکی ہے۔ زیردست قومیں اور گروہ اپنے مطالبات کے حوالے سے عدم توجہی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان انتہائی اقدامات پر اتر آتے ہیں لیکن بھارت کا بلاسوچے سمجھے اس کا رروائی کا الزام پاکستان پر لگانا خالصتاً دشمنی‘ عناد اور نفرت ہے ہمارے پاک افواج کے افسران بالا اور سپاہی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ اور پوری قوم اپنی افواج کے جانبازوں کو سیلیوٹ پیش کرتی ہے۔
ہندوستان کے ہندو¶ں کے دہشت پسندانہ گروہوں نے ہر صدی میں خونین ڈرامے رچائے ہیں خواہ وہ ہندو¶ں کے اپنے ہی شہری کیوں نہ ہوں۔ راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ مشہور زمانہ دہشت گرد تنظیم رہی ہے جو ابھی تک موجود ہے۔ وشوا ہندو پریشد‘ بجرنگ دل اور دیگر خطرناک دہشت پسند تنظیموں نے ہمیشہ خونیں کارروائیاں کی ہیں اور آج تک بھارت کے اچھوتوں کو معاف نہیں کیا جن کی اب بھی بھارت میں 25 کروڑ آبادی ہے۔ جو ظلم و ستم کشمیری مسلمانوں پر ہو رہا ہے۔ اس کا بدلہ تو بھارت کو اپنے گھر میں چکانا ہی پڑے گا۔ اخبارات آئے روز مہاراشٹر‘ احمد آباد‘ لکھن¶‘ ممبئی‘ مدھیہ پردیش‘ الہ آباد‘ بنارس اور اجودھیا میں دہشت گردی کے احوال سے بھری پڑی ہیں۔ مسلمانوں کو بھارت میں زندہ جلایا جا رہا ہے ان کی دکانیں‘ ان کا گھربار جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے۔ اب اگر بھارت کو دہشت گردی کا مفہوم سمجھ آیا ہے تو اپنا رویہ تبدیل کرے ورنہ اب تو آغاز ہو چکا ہے کہ بھارت کا انجام کیا ہو گا؟ یہ ہمیں نظر آ رہا ہے کہ بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے ہیں جس کی ابتداءہو چکی ہے۔ اچھوتوں‘ عیسائیوں‘ اور دلتوں پر جو کچھ بیت رہی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی عورتیں اغواءہو رہی ہیں‘ ان کے گھر بار جلائے جا رہے ہیں۔ ان کی عورتوں کی آبرور ریزی ہو رہی ہے۔ بھارت کے عصرِ حاضر میں تقریباً 24 علیحدگی پسند گروہوں نے علیحدگی پسندی کے لئے اعلانات کر رکھے ہیں لہٰذا جلد یا بدیر بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوں گے۔
پاکستان میں سیکورٹی کو ہائی الرٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ دکن مجاہدین کا مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم بند کیا جائے۔ ان کا قتل عام بند کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے فوج واپس لائی جائے وگرنہ یہ دھماکے اور زور شور سے جاری رہیں گے۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان دھماکوں کے پس منظر میں کوئی بین الاقوامی سازش بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ ممبئی دھماکوں میں انتہا پسند ہندو¶ں کی اپنی کارروائی شامل ہے لیکن کمال ہے کہ الزام پاکستان پر عائد کیا جاتا ہے۔
باش مانند خلیل اللہ مست!
ہر کہن بت خانہ راباید شکست!