منگل‘ 4 ذو الحج 1445ھ ‘ 11 جون 2024

امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی پاکستانی کھانوں کی اردو میں تعریف۔ 
صرف کھانے ہی کیا امریکہ کو تو پاکستان اور پاکستانیوں سے ویسے ہی بہت محبت ہے۔ جبھی تو قیام پاکستان کے فوراً بعد انہوں نے اس نوزائیدہ مملکت پر خصوصی نظر الفت ڈالنا شروع کر دی اور ہم بھی اتنے سادہ نکلے کہ پڑوسی روس کو چھوڑ کر دور دراز کے اس اجنبی ملک سے راہ و رسم بڑھانے لگے اور وہ پیر تسمہ پا بن کر ہمارے گلے ہی پڑ گیا۔ اس کے باوجود کہ بہت سے مواقع پر ہمیں امریکی دوستی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ہم پھر بھی اس زلف کے اسیر رہے جو 1965ءہو یا 1971ءمیں ناگن بن کر ڈستی رہی۔ یہی صورتحال افغان جنگ میں اور اس کے بعد بھی سامنے آئی مگر ہم آج بھی اس پر اعتماد کرتے پھرتے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ مساجد میں ہر جمعہ کو اگلی صف میں بیٹھے بابے امریکہ کی تباہی کی دعائیں مانگتے ہیں اور پچھلی صف میں بیٹھے نوجوان امریکی ویزے کی دعا کر رہے ہوتے ہیں۔خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، اصل بات یہ ہے کہ تمام تر باتوں کے باوجود ہم عاشق صادق بنے ہوئے ہیں اور وہ معشوق بے وفا کا کردار ادا کر رہا ہے۔ تاہم اس کے باوجود جب کبھی امریکی سفیر ہماری کسی چیز کی تعریف کرے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور ہواﺅں میں اڑنے لگتے ہیں۔ امریکی سفیر بھی جہاندیدہ ہوتے ہیں وہ کبھی قمیض شلوار اور کبھی پاکستانی کھانوں کی اردو زبان میں تعریف کرتے ہیں اردو میں ہمیں یوم پاکستان اور عید کی مبارک باد دیتے ہیں تو ہمیں یوں لگتا ہے کہ وہ ہمارے واقعی دوست ہیں۔ خدا کرے یہ بھرم قائم رہے اور امریکہ واقعی ہماری دوستی کی تعریف کرے۔ ویسے ہی جیسے امریکی سفیر نے پاکستانی کھانوں کی تعریف کی اور کراچی کے بزنس روڈ کے کھانوں کو پسندیدہ قرار دیا۔ 
سنی اتحادکونسل نے زرتاج گل کو پارلیمانی لیڈربنادیا۔
زرتاج گل پی ٹی آئی کی پرجوش اور سرگرم رہنما کے طور پر اپنا کردار ادا کرتی آئی ہیں۔اسکی منظوری بھی اڈیالہ جیل سے ملی ہوگی۔ امید ہے اب وہ پارلیمنٹ میں سنی اتحاد کونسل کی پارلیمانی طاقت کو اپنی شعلہ بیانی سے، پرجوش تقاریر سے متحرک رکھیں گی۔ ان کے نام کی منظوری پی ٹی آئی کے بانی نے اڈیالہ جیل سے دی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کپتان ہر میدان میں بہترین مہرے کام میں لاتے ہوئے اپنی گیم کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ حکومت پر ہر میدان میں دباﺅ برقرار رہے۔ اس سے قبل و پی ٹی آئی حکومت میں وزیر بھی رہ چکی ہیں 
ان پر اقربا پروری کے الزامات بھی لگے ہیں۔ مگر وہ اسی طرح دبنگ انداز میں دفاع کرتی رہی ہیں۔ خیر یہ الزامات ہماری سیاست میں اب لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ ہر ایک سیاستدان دوسرے پر الزامات لگاتا ہے۔ ایک پارٹی دوسری کو کرپٹ کہتی ہے۔ سب خود کو دودھ میں دھلا کہتے ہیں۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں۔ ہماری سیاسی گنگا اب ان لوگوں کے پاپ دھوتے دھوتے واقعی میلی ہو چکی ہے۔ ویسے بھی ہماری پارلیمنٹ میں جس طرح کا ماحول بن چکا ہے اس میں پارلیمانی قائد کا کردار ادا کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ اب تو اس معزز ایوان میں ہاتھا پائی، گالی گلوچ تک عام ہو چکا ہے۔ حکومتی ہوں یا اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ۔ سب لگتا ہے پارلیمانی کارروائی میں حصہ لینے سے زیادہ شور شرابا کرنے اور ایک دوسرے کی تقاریر میں مداخلت کرنے کے لیے آتے ہیں اور قانون سازی یا دیگر امور میں ان کی دلچسپی واجبی نظر آتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭
پاکستان مودی کے حلف اٹھانے کے بعد انہیں مبارکباد دے گا۔ترجمان دفتر خارجہ۔
یہ تو بڑی زیادتی ہے۔ ایک تو مودی جی ابھی تک اس بار400 پار کے صدمے سے باہر نہیں نکلے۔ الیکشن میں دوتہائی اکثریت حاصل نہ کرنے کا زخم ابھی تازہ ہے کہیں کہیں سے تو خون بھی رس رہا ہے۔ مودی تو پہلے رام مندر بنا کر خود کو رام بھگت ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا الیکشن کے بعد تو وہ باقاعدہ اپنے بھگوان ہونے کی گھوشنا ، منادی کرنے والے تھے۔ بہت سے کوڑھ مغز توہمات کے مارے ہندوتوا کےدیوانے ان کو شاید اوتار یا بھگوان کا ہی روپ بھی مان لیتے مگر برا ہو (انڈیا) اپوزیشن اتحاد کا جس نے مودی جی کا یہ خواب چکنا چور کردیا اور اس وقت مودی کسی زخمی سانپ کی طرح بل کھا رہے ہیں۔ ان کی جیت بھی اس وقت ان کے گلے کا ہار نہیں سانپ بن چکی ہے۔ اب وزارت اعظمیٰ ان کے لیے پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج ثابت ہو گی۔ انہوں نے نفرت کی جو آگ جلائی تھی لگتا ہے وہی ان کے چتا کی اگنی بھی ثابت ہو گی۔ ان حالات میں کم از کم پڑوسی ہونے کے ناطے ہی سہی پاکستان اشک شوئی کی خاطر زخموں پر مرہم کے نام پر مودی کو جھوٹے منہ ہی سہی، دوسرے ممالک کی طرح غم غلط کرنے کے لیے ہی مبارکباد دے دے۔ مگر پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ جب مودی حلف اٹھا لیں گے تب انہیں مبارکباد دیں گے۔ چلو دیر آید درست آید۔ اب ایسا کرنا ہی ہو گا کیونکہ یہ سفارتی مجبوری ہے جو پوری کرنا ہوتی ہے۔ ایسا کرنا ہی ہوتا ہے چاہے دل مانے یا نہ مانے۔ 
٭٭٭٭٭
کاش بارش نہ رکتی۔ بادل دل کھول کے برستے۔ 
ہزاروں خواہشیں ایسی ہوتی ہیں جو پوری نہیں ہوتیں۔ ان میں ایک اب یہ بھی شامل ہو گئی ہے کہ ٹی ٹونٹی کے میچ میں بادلوں نے جو انٹری ڈالی تھی وہ مکمل ہوتی۔ بارش خوب برستی اور یہ منحوس میچ ہی نہ ہوتا جس میں ہم جیت نہ سکے۔ یوں یہ دکھ نہ سہنا پڑتا۔ نسیم شاہ کو رونا نہ پڑتا۔ حالانکہ اس نے اچھا کھیل کھیلا مگر ب±را ہو ہمارے بلے بازوں کا جنہوں نے اچھا خاصہ کھیل بگاڑ دیا اور تو چل میں آیا والی بات پر عمل پیرا ہوتے نظر آئے۔ ہمارے اچھے خاصے کھلاڑی نجانے کیوں اپنے روایتی حریف کے سامنے مٹی کے مادھو بن جاتے ہیں۔ بقول شاعر 
یوں آبرو بناوے دل میں ہزارباتاں
 جب تِرے آگے آوے گفتار بھول جاوے
یہی کچھ ہمارے بلے بازوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اب سپر ایٹ کے مرحلے کا خواب تو چکنا چور ہو گیا۔ باقی میچوں کے لیے یا تو اچھا کھیلنا ہو گا یا بارش کی دعائیں کرنا ہوں گی۔ بھارتی کھلاڑیوں اور شائقین نے تو گراﺅنڈ میں یوں جشن منایا گویا ورلڈ کپ جیت لیا ہو۔ سب سے زیادہ خوشی تو مودی کو ہو رہی ہو گی۔ ایک تو پھر وزیر اعظم بننے کی اور اسی روز پاکستان کے خلاف میچ جیتنے کی۔ ہماری حکومت اور اداروں کی طرف سے اپنی ٹیم کو کامیابی پر بھاری انعامات کی دی گئی ترغیبات بھی بے کار گئیں۔ لوگ کہہ رہے ہیں امریکہ کے ہم قرض دار ہیں اس لیے ان سے ہارے تاکہ ناراض نہ ہو اب بھارت سے ہارنے پر مبصرین کیا کہانیاں سنائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن