سانحہ کربلا اور آج کا غزہ

رانا ضیاءجاوید جوئیہ 
قارئین گرامی محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی ہمارے ذہنوں میں واقعہ کربلا اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ہم سب لوگ واقعہ کربلا سے پوری طرع آگاہ ہیں اس لئے اس واقعہ کی تفصیلات میں جائے بغیر صرف اس کے مقاصد اور آج کے مسلمانوں کے لئے اس کی اہمیت پر بات کرتے ہیں 
قارئین گرامی ایک بات تو طے ہے کہ یہ معاملہ صرف اور صرف صحیح اور غلط کا تھا ایک طرف ایک ایسا حکمران تھا جسے خلفائے راشدین کی روایات کے برعکس اس کے والد نے خلیفہ نامزد کر دیا تھا اور دوسری طرف نواسہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کہ جنہوں نے اس کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا ہمیں اختلافی مسائل میں جائے بغیر یہ کہنا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے بیعت سے انکار صرف اس لئے نہی کیا تھا کہ خلیفہ نامزد کرنے کا طریقہ کار غلط تھا بلکہ اس لئے بھی کیا تھا کہ جسے خلیفہ نامزد کیا گیا تھا اس کا کردار بھی خلفاء والا نہی تھا اگر آپ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سب کو دیکھیں تو ان سب کے بیٹے بہترین باکردار مسلمان اور خلیفہ بننے کے پوری طرع اہل تھے لیکن کسی نے بھی اپنے بیٹے کو جانشین نہی بنایا تھا اور حضرت امام حسن علیہ السلام نے تو خلافت صرف امت کو فساد سے بچانے کے لئے چھوڑی تھی اور چھوڑتے وقت معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ کسی بیٹے کو خلیفہ نامزد نہی کیا جائے گا لیکن ہماری بد قسمتی کہ بیٹے کو تمام روایات اور اصولوں کے برعکس خلیفہ نامزد کر دیا گیا جسے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ افراد کے لئے تسلیم کرنا مشکل تھا اسی لئے حضرت امام حسین علیہ السلام نے صرف اصولوں کے لئے بیعت سے انکار کیا اور کربلا کے میدان میں اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہو کر تا ابد زندہ و جاوید ہو گئے جبکہ اس کے برعکس انہیں شہید کرنے والے آج تک ملعون ہی کہلاتے ہیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے شہادت کا انتخاب کیا اگرچہ بظاہر وہ بیعت کر کے دنیاوی فوائد بھی حاصل کر سکتے تھے لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے دنیوی فوائد چھوڑ کر آخرت کا انتخاب کیا کرتے بھی کیوں نہ آخر آپ رضی اللہ عنہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں 
میری آج کی اس تحریر کا مقصد قارئین کو یہ بھولا ہوا سبق ہمیشہ یاد رکھنے کے مقصد سے ہے کیونکہ یہ ہمیں حریت کا بھی درس دیتا ہے اور غلط کو تسلیم نہ کرنے کا بھی درس دیتا ہے ہم صرف محرم الحرام میں اس واقعہ پر آنسو بہا کر پھر پورا سال شاید اسے بھول جاتے ہیں جبکہ اس عظیم قربانی کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم اسے ہر وقت یاد رکھیں تاکہ ہمارے معاشرے میں غلط لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو آج کل کے جمہوریت کے نظام میں تو ہمارے لئے یہ بہت آسان ہے کہ ہم اپنا ووٹ کسی ایسے نمائندے کو بالکل بھی نہ دیں جو اسلام سے دور ہو اسکا تعلق خواہ کسی بھی پارٹی سے ہو تاکہ صالح قیادت سامنے آ سکے 
اس کے علاوہ ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جو درس دیا گیا ہے ہم اکثر مصلحت کا تقاضہ کہہ کر اپنی ذمہ داریاں پوری نہی کرتے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ خواہ جان بھی چلی جائے غلط کو صحیح نہی کہنا اور غلط کی اطاعت اور پیروی بھی نہی کرنی اور یقین جانئے یہ جان بھی صرف بظاہر جاتی ہے جبکہ بندہ امر ہو جاتا ہے ہمیشہ کے لئے اس لئے ہمیں تمام تر مصلحتیں بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیشہ غلط لوگوں کو غلط سے روکنا اور نیکی کو پھیلانا ہے اس کے لئے ہمیں کسی حکومت کی ضرورت نہی ہم میں سے ہر ایک صرف اپنے اپنے گھر والوں ہی کو سیدھے راستے پر رکھ لے تو ایک بہترین معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے 
ہم میں سے ہر ایک کے لئے اس دنیا میں ایک کردار متعین کیا گیا ہے جیسا کہ کوئی مزدور ہے، کوئی استاد ہے، کوئی طالبعلم ہے کوئی ڈاکٹر ہے،کوئی انجینیئر ہے کوئی صنعت کار ہے ہمیں جو بھی کردار اس دنیا میں ادا کرنا ہے ہمیں وہ اصولوں اور صحیح غلط کی تمیز کے ساتھ ادا کرنا ہے اور جو لوگ اللہ کے احکامات کو تسلیم نہی کرتے ہمیں ان کے احکامات مصلحت کے نام پر تسلیم کرنے کی بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا ہے اور اس ملک کو جو حاصل ہی اسلام کے نام پر کیا گیا اسلامی مملکت بنانا ہے جو صرف اسی وقت ممکن ہے جب پہلے ہم خود باعمل مسلمان بن جائیں
قارئین گرامی دشمن نے ہمارے ملک میں ہمیں مختلف عصبیتوں کا شکار کر کے تقسیم کر دیا ہے آج ہم پنجابی ،سندھی، پٹھان ،بلوچی ، کشمیری کے نام پر کہیں پر تقسیم ہیں تو کہیں شیعہ، سنی، اہلحدیث یا اہل سنت کے نام پر تقسیم ہیں اگر ہم باعمل مسلمان بن جائیں تو پھر ہر دوسرا مسلمان ہمارا بھائی ہو گا اور پوری امت مسلمہ ایک جسد واحد کی طرع ہو گی اور پھر دنیا بھر کی کسی بھی طاغوتی طاقت کو دنیا بھر کے کسی بھی مسلمان کے ساتھ ظلم کرنے کی جرات نہ ہو گی 
قارئین گرامی واقعہ کربلا کے وقت تو ہم موجود نہی تھے اس لئے اس پر ہم صرف افسوس ہی کر سکتے ہیں لیکن جو کربلا آج غزہ ، کشمیر سمیت مختلف حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے جا رہی ہے یہ تو ہمارے سامنے ہو رہی ہیں اس لئے اگر ہم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقائے کرام سے واقعی محبت اور عقیدت رکھتے ہیں تو ہمیں آج جو کربلائیں پرپا کی جا رہی ہیں انہیں روکنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنا ہوں گی اور یقین مانئے اگر ہم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور انکے رفقائ کی شہادت پر صرف افسوس کرنے کی بجائے اس سے سبق حاصل کریں اور اس وقت کے کوفہ والوں کا کردار ادا کرنا چھوڑ دیں تو حضرت امام حسین علیہ السلام ، انکے رفقائے کرام، رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم اور اللہ کریم ہم سے زیادہ خوش ہو جائیں گے اور جب وہ خوش ہوں گے تو پھر اس دنیا میں بھی ہر مسلمان محفوظ ہو جائیگا اور ہماری اپنی آخرت بھی بہترین ہو جائے گی تو آئیے آج واقعہ کربلا کے تناظر میں ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاریں گے اور دین اسلام کی سربلندی اور حق سچ کی سربلندی کے لئے ہم کوئی بھی قربانی دینے سے گریز نہی کریں گے اور پاکستان کو زیادہ محفوظ اور مستحکم بنائیں گے اور اس میں پھیلائی گئی تمام عصبیتیں واقعہ کربلا سے سبق لیتے ہوئے ختم کر دیں گے
قارئین گرامی جس طرع واقعہ کربلا صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی ہمیں یاد ہے اور ہم اس پر افسوس اور غم کا اظہار کرتے ہیں اسی طرع آج دنیا بھر کے مسلمان خواہ وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اس بات سے آگاہ ہیں کہ یہودیوں نے فلسطیں سے مسلمانوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے غزہ میں پھنسے بے یار و مددگار بچوں ، بزرگوں اور خواتین تک کے لئے زندگی جینا تقریبا ناممکن بنا دیا ہے حتی کہ شدید زخمی بچے بھی ہسپتالوں سے کسی قسم کے علاج کی سہولت نہی لے سکتے کیونکہ اسرائیلی بمباریوں کے باعث ہسپتال تک تباہ ہو گئے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سب مظالم دیکھنے کے باوجود ہم اس وقت کے کوفہ والوں کی طرع بس تماشائی بنے ہوئے ہیں اس طرع تو خدانخواستہ غزہ میں یہ صورت ہو سکتی ہے کہ تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستںانوں میں قارئین گرامی کربلا کے واقعہ سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں غزہ کو ایک اور کربلا بننے سے بچانا ہے اور اس کے لئے ہمیں جو کچھ بھی ہم کر سکتے ہیں وہ کرنا ہے اور سب سے پہلے تو عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے جنگی جرائم پر اس کے خلاف پوری امت مسلمہ کو ایک مضبوط مقدمہ لڑنا ہو گا، پھر اقوام متحدہ پر پریشر ڈالنا ہو گا کہ وہ اس جگہ بھی کچھ کردار ادا کر لے جہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور ہمیں ایک جسم کی مانند بن کر غزہ میں ہونے والے مظالم کو خود پر محسوس کرنا ہو گا اب خالی اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے سے کام نہی چلے گا بلکہ پوری دنیا کے تمام تر مسلمانوں کو اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کی تجارت مکمل بند کر کے اسرائیل کو اقتصادی طور پر بھی تباہ کرنا ہو گا اور پاکستان جیسے ایٹمی صلاحیت رکھنے والے اسلامی ممالک کو اسرائیل کو یہ صاف صاف بتانا ہو گا کہ ہم کوفہ والے نہی ہیں اور ہم غزہ کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش تماشائی زیادہ دیر نہی رہیں گے اور اپنے بھائیوں کو بچانے کے لئے بوقت ضرورت ایٹمی صلاحیت کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہی کریں گے اگر ہم اسرائیل کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جائیں کہ غزہ کے مسلمان اکیلے نہی ہیں تو یقین مانئے اسی دن اسرائیل باقاعدہ معافی مانگ کر مزید مظالم سے باز آ جائے گا اب فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہم نے واقعہ کربلا سے سبق لے کر غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کو بچانا ہے یا بس تماشائی بنے رہ کر انکی مکمل بربادی دیکھنا ہے

ای پیپر دی نیشن