بیڈ معاش
آج سات جولائی ۲۰۱۸ ہفتے کا دن ہے اور وہ فیصلہ آئے ہوئے تقریباً بیس گھنٹے گزر چکے ہیں جس کے مطابق شریف لوگ ملزم شریف سے مجرم شریف ہو گئے!!ع بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ویسے یہ لفظ ’شریف ‘ بھی عجب لفظ ہے۔ اس کا بامعنی جزو ’شر‘ ہے اور بے معنی جزو’ یف‘ ہے۔ ہے ناں قابلِ غور بات!شر کے معنی شریف کے بالکل اُلٹ ہیں۔کوئی ماہرِ علم الاعداد شاید واضح کر سکے کہ یہ تضاد کیا ،کیوں اور کیسے ہے؟اچھا بیس گھنٹے بعد بھی کوئی متوالا کسی سڑک پر نہیں آیا۔ جیسے متوالوں کو پروا ہی نہیں ہے کہ ا ُن کے ’محبوب لیڈر‘ پر کیا قیامت گزر چکی ہے ! کیسے کیسے آرے دل، دماغ اور جگر وغیرہ پر چل چکے ہیں؟ کل تک جو جلسوںجلوسوں میں ’میاں دے نعرے گجن گے‘، ’کون آیا کون آیا، شیر آیا شیر آیا‘ قسم کے نعرے لگا لگا کر مزدوری حلال کرتے تھے آج ایسے غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ایسی بلندی ‘ایسی پستی!!جو ہم جیسے معمولی عقل و شعور کے مالک پاکستانی تھے اُن پر یہ نقشہ عیاں تھا۔ آخر مجرموں پر پہلے بھی تو اسی قسم کے سانحے گزر ہی چکے تھے۔ پہلے کون ان کی داد رسی کو آیا تھا جو‘ اب آتا۔ اب تو وہ اینکر بھی جواب دے چکے جو کل تک کسی نہ کسی بہانے مجرموں کی جان خلاصی کے طریقوں کی توڑی مروڑی ہوئی قلا بازیاں کھا کھا کر لہو لہان ہو ہو جاتے تھے۔ کل ایک ایسے ہی اینکر کو دیکھا کہ اُن کے ممدوح کو اور ممدوح کی بیٹی اور داماد کو ملٹی پل سزائیں ملنے پر غیظ وغضب اور مایوسی سے آپے سے ہی باہر ہوئے جا رہے تھے ۔کنڈکٹر اینکر کو بریک لے کر سیالکوٹ کے جم پل اُس مشہور ومعروف اینکر کے غُصے کو ڈھانپنا پڑا۔ ورنہ شاید موصوف سامنے رکھے مانیٹر کو ہی لات مار دیتے! نمک حلالی ہو تو ایسی ہو۔ اب دیکھیں یہ کتنے دن چلتی ہے ! ویسے ہو سکتا ہے موصوف کو اس دوران میں کوئی بہتر نہ سہی کم تر کلائینٹ ہی میسر آ جائے! ع پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ! آج اتوار ہے اور مجرمین کو سزاؤں کا اعلان ہوئے تیسرا دن، کوئی متوالا سرِ بازار نہیں آیا۔ میرا ہی ایک شعر ہے ؎ آج پھر رونا ہے دل کا ماجرا آج پھر لُٹنا ہے بازاروں کے بیچ لیکن حسرت ہی رہی کہ کوئی متوالا تودل کا ماجرا رونے بازاروں میں آتا! کوئی تو ہوتا جو متاعِ دل و جان لُٹانے بیچ میدان نکلتا، کوئی تو ہوتا جو’ مجھے کیوں نکالا ‘کا بھرم رکھنے ہی کو سہی نکلتا تو! وائے حسرت کوئی نہ نکلا !اور میاں کو مجرم بنے تیسرا دن ہے! ہاں کچھ دیوانے اینکر بازاروں میں ضرور نکلے کہ متوالوں سے اظہارِ افسوس بھی کریں اور اُن کا حال بھی جانیں۔ جس بجھے ہوئے متوالے سے پوچھا اُس نے یہ تو کہا ہی کہ فیصلہ غَلَط ہے مگر اُس کا انداز ایسا تھا کہ ’مگر اب کیا ہو سکتا ہے!‘ تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر نا اہل ومجرم میاں صاحب واپس آ جائیں تو ہم پھر دھوکہ کھانے کو تیّار ہو جائیں گے! ویسے میاں صاحب نے اپنے لیے بھاری دن پھر سے چُن لیا ہے فرماتے ہیں کہ جمعے کو وطن واپس آؤں گا۔ اُن کی صاحبزادی نے بھی جمعہ ہی چنا ہے ۔ کیا میاں صاحب نے اپنے مُرشد ڈنڈے والے یا کسی اور پہنچے ہوئے یا زرداری کے ہی پیر اعجاز صاحب سے فال نکلوا لی ہے کہ جمعے کو پردیس کا سفر سعد ہو گا یا نہیں؟پردیس اس لیے کہ یہاں تو وہ اوورسیز پاکستانیوں کی طرح کمائی کرنے آیا کرتے تھے۔ اوورسیزپاکستانی تو خیر چند درہموں یا ڈالروں یا پاؤنڈوں کی کمائی کرنے جاتے ہیں مگر متوالوں کے میاں صاحب کی یہ نرد بھی نرالی ہے۔ وہ پاکستان جب بھی آکر ڈیرہ ڈالتے ہیں اربوں کھربوں کی کمائی کرتے ہیں اور لندن یا سپین جاکر ایک نیا ٹاور کھڑا کر لیتے ہیں۔ تو کیا اس بار بھی وہ پاکستان آ کر اربوں کی کمائی کر سکیں گے؟ اگر نہیں، اور زیادہ چانسز ہیں کہ نہیں کر سکیں گے تو پردیس یعنی پاکستان آنا فضول ہی جائے گا!مزے سے اپنے دیسوں میں رہیں، سیلفرج اور دیگر میگا سٹورز میں خریداریاں کریں۔ ہر سُوٹ سے میچ کرتی ہوئی ہزاروں کی نکٹائیاں اور کروڑوں کی گھڑیاں خریدیں اور یاد رکھیں بابر بادشاہ نے فرمایا تھ اع بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست میاں صاحب یہ دنیا چند روزہ ہے اور پاکستان میںکسی شے کی کوئی کمی نہیں۔آج اتوار ہے اور نیب کی تین دن کی ’’ناکام‘‘ کوششوں کے بعداپنی مرضی سے تیسرا مجرم خیر سے یکا یک راولپندی میں نمودار ہو گیا ہے اور ایک ٹرک نما گاڑی میں کھڑا بار بار اپنی ’’جبیں‘‘ سے عرقِ ندامت پونچھ رہا ہے۔نیب پولیس والے اول تو نظر ہی نہیں آتے اور اگر کہیں تین چارنظر بھی آ رہے ہیں تو آپس میں نالائق اینکروں کی طرح بے مطلب و مقصد مو ضوعات پر کم کوش بحث کرتے نظر آ رہے ہیں۔ لگتا ہے اُنہیں لوگوں کے جمع ہو کر نعرے بازی کا انتظار ہے تا کہ عاشق کا جلوس دھوم دھام سے نکلے بالآخر صفدر نامی مجرم نمبر تین گرفتار ہو ہی گیا۔اب پتا نہیں اُسے کس بنگلے میں رکھتے ہیں تاکہ قید با مشقت کے باوجود اُسے کوئی تکلیف نہ پہنچے اور انصاف کا دہرا معیار قائم رہ سکے۔ آج سوموار ہے اور کیپٹن صفدر نامی مجرم گرفتار ہو کر، عدالت میں پیش ہو کر اور اپنی صحت و تندرستی کا معائنہ کرا کے اڈیالہ جیل پہنچ کر پھر سے ڈاکٹری معائنہ کروا کے جیل میں بھرتی ہو گیا ہے۔ اور شاید اس لیے کہ سابقہ کپتان ہے جیل کے اے وارڈ میں متمکن ہو گیا ہے جہاں اُسے اخبار، فریج اور ٹیلیویژن کی سہولتیں بھی میسر ہوں گی۔اسے کہتے ہیں کہ جتنا بڑا مجرم اُتنی زیادہ سہولتیں۔ اب دیکھیے بڑے میاں اور اُن کی ناز و نعم میں پلی شہزادی کو اے پلس ملتی ہے یا فائیو سٹار ہوٹل یا کوئی جاتی عمرہ ملتا ہے۔خیر جو بھی ملے اُس پر بھی اُنکے پلے سے کچھ خرچہ نہیں ہو گا جہا ں وہ بے شمار عمرے ہمارے ٹیکسوں پر کرتے رہے ہیں وہاں جیل نما عیاشی بھی ہمارے ہی خرچے پر کریں گے۔ اسے کہتے ہیں نصیب اپنا اپنا۔ویسے نیب وغیرہ نے میاں صاحب کا ایک گلہ بھی دور کر دیا ہے۔یعنی سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری، اُن کی ہمشیرہ محترمہ اور کئی دوسروں کو ایک تو ملک محصور کر دیا ہے دوسرے مقدمے بھی کھولنے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ اُن کے ایک فرنٹ مین حسین لوائی کو تو نیب چند روز قبل گرفتار کر ہی چکی ہے۔ گویا جو باریاں زرداری اور شریف نے اسلام آباد تخت پرمقرر کر رکھی تھیں وہ اڈیالہ کے تختِ طاؤس پر بھی جاری رہیں گی۔اسے کہتے ہیں ہمہ یاراں دوزخ ہمہ یاراں جنت۔اُدھر عمران خان نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کرتے ہوئے کرپشن،تعلیم، بے روزگاری کے خاتمے ٹیکس ریفارمز اور پانی وغیرہ کے مسائل کا حل پیش کر دیا ہے۔نیزکل دوبجے بعد دوپہر آئی ایس پی آر بھی ایک پریس کانفرنس کر رہی ہے۔ ع دیکھیںکیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔ گویا ملک بھر میں ایک ہنگامہ بپا ہے۔اور وہ جو غالبؔ نے کہا ہے کہ ع ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق ‘ تو ہنگامہ زوروں پر ہے۔ لوگ ایک سہانے مستقبل کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔جو پچھلی تین دہائیوں سے اقتدار کے مزے لُوٹ رہے تھے سخت مشکل میں ہیں۔ جواس دوران میں لوگوں کو مصیبتوں میں مبتلا کر کے بیرونِ ملک جائدادیں بنا چکے تھے وہ اپنے مال اور جان کو کسی بھی طور بچانے کا اُپائے کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ہر کوئی معجزے کے انتظار میں ہے۔ اللہ خیر کرے اور نیک لوگوں کوشر سے بچائے رکھے۔ آمین۔ یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔