مخلوط حکومت کی جانب بڑھتی سیاسی فضا

الیکشن کمیشن کی جانب سے آٹھ فروری کے انتخابات کے اب تک جتنے نتائج کا اعلان کیا گیا ہے اس سے جہاں نئے منتخب ایوانوں میں سیاسی جماعتوں کی حیثیت واضح ہوئی ہے وہیں یہ امر بھی واضح ہو گیا ہے کہ وفاق‘ پنجاب اور بلوچستان میں کوئی ایک بھی سیاسی جماعت تنہاء حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ چنانچہ یہ امر طے شدہ ہے کہ وفاق اور دو صوبوں میں مخلوط حکومتیں تشکیل پائیں گی تاہم سندھ میں تنہاء پیپلزپارٹی اور خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالے آزاد ارکان اپنا آزاد گروپ قائم کرکے حکومت تشکیل دینے کی واضح پوزیشن میں ہیں اور اسی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کیلئے باہمی رابطوں اور مشاورت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اب تک قومی اسمبلی کی مجموعی 266 نشستوں میں سے 253 نشستوں کے نتائج سامنے آئے ہیں جن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالے آزاد ارکان کی تعداد 99 ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کو 72‘ پیپلزپارٹی کو 53‘ اور ایم کیو ایم کو 17 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت تشکیل دینے کیلئے کسی بھی پارلیمانی لیڈر کو 169 ووٹوں کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اگر قومی اسمبلی کے منتخب ایوانوں میں کسی بھی پارلیمانی پارٹی کو ارکان کی مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل نہ ہو پائی تو پھر اسمبلی کے دوبارہ انتخاب کی طرف جانا پڑیگا۔ چنانچہ سیاسی قیادتوں کیلئے یہی سوچ بچار کا مرحلہ ہے کہ انہوں نے موجودہ منقسم مینڈیٹ کی بنیاد پر آپس میں مفاہمت کرکے مخلوط حکومت تشکیل دینی ہے یا اسمبلی کے دوبارہ انتخابات کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ 
دوبارہ انتخابات کی صورت میں کثیر انتخابی اخراجات کا بوجھ ہی دوبارہ قومی خزانے پر نہیں پڑیگا بلکہ موجودہ پیدا شدہ سیاسی منافرت کی فضا بھی مزید گھمبیر صورت اختیار کر جائیگی اور سیاسی جماعتوں کے مابین بڑھتی محاذآرائی سے ملک کی سلامتی کے درپے عناصر کو ملک کے اندر دہشت گردی کی جاری رکھی گئی وارداتوں کا سلسلہ مزید تیز کرنے کا بھی نادر موقع مل جائیگا۔ اس فضا میں امن و امان کی صورتحال مزید ابتر ہوگی تو دوبارہ انتخابات کا پراسس شروع کرنا بھی بادی النظر میں مشکل ہو جائیگا۔ 
آٹھ فروری کے انتخابات ریاستی اداروں کی جس مشقت اور کمٹمنٹ کے ساتھ منعقد ہوئے ہیں وہ بلاشبہ ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک نادر کارنامہ تھا کہ کئی حلقے اور عناصر انتخابات کو لٹکائے رکھنے کی تدبیریں سوچے بیٹھے تھے جن کا سینیٹ میں پیش کی گئی قراردادوں اور مولانا فضل الرحمان کے بیانات کے ذریعے اظہار بھی ہوتا رہا۔ اسکے باوجود چیف جسٹس سپریم کورٹ کے اعلان کردہ پتھر پر لکیر انتخابات کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکی اور اب الیکشن کمیشن کی بے تدبیری کے باعث تاخیر کا شکار ہوتے انتخابی نتائج بھی سامنے آچکے ہیں جن پر بعض حلقوں اور انفرادی طور پر بعض امیدواروں کے تحفظات کے اظہار کے باوجود سیاسی جماعتوں نے مجموعی طور پر ان نتائج کو قبول بھی کرلیا ہے تو اس سازگار فضا کو اب جمہوریت کے تسلسل و استحکام کیلئے بروئے کار لایا جانا چاہیے چہ جائیکہ اپنی اپنی انائوں میں پڑ کر جمہوریت کی منزل کی جانب جاری سفر کھوٹا کیا جائے۔ 
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ انتخابی سیاسی میدان میں ایک دوسرے کیخلاف صف آراء سیاسی قیادتوں کو بھی حالات کی نزاکت کا احساس و ادراک ہو چکا ہے چنانچہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر گزشتہ اسمبلی میں متحدہ حکومت تشکیل دینے والی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علماء اسلام (ف) کی قیادتیں موجودہ منتخب اسمبلی میں بھی ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ مشترکہ مخلوط حکومت کی تشکیل پر متفق ہونے کا عندیہ دے رہی ہیں۔ موجودہ اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالے آزاد ارکان کی عددی اکثریت اپنی جگہ ایک حقیقت ہے تاہم وہ آزاد حیثیت میں منتخب ہونے کے باعث کسی پارلیمانی پارٹی میں شامل ہو کر ہی حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اگر اس پارٹی کی قیادت ملک کی سلامتی اور معیشت کو درپیش چیلنجوں کا ادراک کرکے اپنی سیاست میں قومی مفاہمت کا عنصر شامل کرلے تو وہ آزاد حیثیت میں منتخب ہونیوالے اپنے ارکان کو مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دینے کیلئے بروئے کار لا سکتی ہے تاہم پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے متذکرہ دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی حکومتی اتحاد بنانے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا جس کا عندیہ پی ٹی آئی کے لیڈر بیرسٹر گوہر علی کے گزشتہ روز جاری کئے گئے اس بیان سے بھی ملتا ہے کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے ساتھ ہرگز اتحاد نہیں کریگی۔ 
یہی وہ انا پرستی کی سیاست ہے جس نے اخلاقی اقدار کی پاسداری کی بجائے منافرت کی سیاست کوفروغ دیا ہے اور اس طرح ملک میں انتشار‘ انارکی اور افراتفری کا ماحول گرما کر ملک اور سسٹم کی سلامتی کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا کئے گئے ہیں۔ چنانچہ دوسری جماعتوں کی قیادتیں حالیہ انتخابی نتائج کی بنیاد پر ملک میں ممکنہ طور پر پیدا ہونیوالے سیاسی عدم استحکام کو بھانپ کر سسٹم کو بھنور سے نکالنے کے جذبہ کے تحت مخلوط حکومت کی تشکیل پر متفق ہوتی نظر آرہی ہیں تو موجودہ حالات میں یہی بہترین سیاسی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے انتخابی مرکزی دفتر کے باہر عوام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پی ڈی ایم والے سابقہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دینے کا نہ صرف عندیہ دیا بلکہ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم میاں شہبازشریف کو اس مقصد کیلئے پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم اور جمعیت علماء اسلام (ف) کی قیادتوں سے روابط اور ان کے ساتھ مشترکہ حکومت کیلئے معاملات طے کرنے کی ذمہ داری بھی سونپ دی۔ انکی تقریر کے بعد مزید خوشگوار صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری‘ پیپلزپارٹی کے صدر بلاول بھٹو زرداری بیگم فریال تالپور کے ساتھ لاہور پہنچ گئے اور پھر ان دونوں جماعتوں کی قیادتوں کے باہمی روابط اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جبکہ میاں شہبازشریف نے ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کرکے مخلوط حکومت کی تشکیل کیلئے مشاورت کرلی۔ 
ان دوطرفہ روابط اور ملاقاتوں میں یقیناً اشتراک اقتدار کے ممکنہ فارمولوں پر بھی بات ہو رہی ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ حکومتی اتحادی کی شکل میں پی ڈی ایم کا دوبارہ احیاء ہو جائیگا اور آئندہ چند روز میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں حکومتیں تشکیل پا جائیں گی۔ چونکہ موجودہ اسمبلیوں کے ماتحت آئندہ ماہ سینیٹ کے آدھے ارکان کا انتخاب عمل میں آیا ہے جس کے بعد صدر مملکت کا انتخاب ہوگا اس لئے موجودہ اسمبلیوں پر سسٹم کو چلانے اور مستحکم بنانے کی بھی بھاری ذمہ داری پڑ چکی ہے جبکہ اسی سیٹ اپ نے عوام کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے دلدل سے نکالنے اور قومی معیشت کو درپیش چیلنجوں سے عہدہ برا ہونے کی بھاری ذمہ داری بھی ادا کرنی ہے جس کیلئے قومی سیاست میں قومی افہام و تفہیم ہی بہترین آپشن ہے۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ قومی سیاسی قیادتیں باہم متحد ہو کر ہی جمہوریت کی ڈولتی کشتی کو گرداب سے نکالنے اور جمہوری نظام کیخلاف جاری سازشوں کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

 سکول میں پہلا دن ۔ دیدہ و دل

 ڈاکٹر ندا ایلی آج میری بیٹی کا سکول میں پہلا دن تھا ۔وہ ابھی بہت چھوٹی تھی ۔ مجھے سارا دن بہت پریشانی رہی ۔ پتہ نہیں اس نے ...