ناراض بلوچ، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی پر بلاول بھٹو کا سخت ردعمل!!!!

 پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ حکمرانوں نے ہر دور میں بنیادی مسائل کے دیرپا اور پائیدار حل کے بجائے وقت گذارنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ معاشی پالیسیاں ہوں، سیاسی استحکام ہو، عام آدمی کے مسائل ہوں، توانائی کا شعبہ ہو، صوبوں کے مسائل ہوں یا پھر ترقیاتی منصوبے، ہر شعبے میں حکمرانوں نے صرف وقتی فائدہ دیکھتے ہوئے کام کیا۔ ان سب سے بڑھ کر بدقسمتی ہے کہ امن و امان کے معاملے میں بھی سیاسی قیادت نے ملکی مفاد کے بجائے سیاسی مفاد کو ہی ترجیح دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک کے مسائل اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ ایک جگہ سے پانی روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری طرف سے نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ یعنی نظام میں اتنے سوراخ ہو چکے ہیں کہ سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس ے زیادہ تکلیف دہ بات کیا ہو گی کہ بلوچستان کے لوگ آج بھی احساس محرومی میں مبتلا ہیں۔ بلوچستان کے لوگ سمجھتے ہیں کہ دیگر صوبے ان کی حق تلفی کرتے ہیں اور وفاق بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کرتا۔ مختلف وقتوں میں حکمران بلوچوں کے ساتھ وعدے تو کرتے آئے ہیں لیکن جتنے وعدے ہوئے ہیں ان کا نصف بھی نبھایا جاتا تو آج حالات مختلف ہوتے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ ملک کے موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کوئٹہ گئے ہیں اور انہوں نے ناراض بلوچوں کو مل بیٹھ کر گلے شکوے دور کرنیکی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو بلوچستان اور پاکستان کی خیرخواہی چاہتا ہے اسے گلے لگائیں گے، خارجی طاقتوں کو ہم سب جانتے ہیں۔ ہم نے عام آدمی کو ریلیف دینا ہے، وفاق بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے آپ کے ساتھ ہے، اگر بلوچستان اور کے پی میں سرمایہ کاری لانی ہے تو سکیورٹی ہماری سب سے پہلی ضرورت ہے، ہم دہشت گردی کے ناسور کو مل کر ختم کریں گے۔بلوچستان ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہے جس کی کئی وجوہات ہیں، اگر پانچ سو ارب سبسڈی کا پیسا بلوچستان کی ترقی و خوشحالی پر لگا ہوتا تو یہاں ترقی ہوتی۔
میاں صاحب دوسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے ہیں۔ ان کے برادر اکبر تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں یعنی نہ تو بلوچستان کے مسائل موجودہ وزیراعظم کے لیے کچھ نئے ہیں نہ ہی وہ یہ حالات پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں۔ کاش کہ ایک مرتبہ مل بیٹھ کر طے کر لیں کہ ہم نے ترقی کا سفر کرنا ہے اور اس کے راستے میں ہر رکاوٹ کو عبور کرنا ہے۔ اس کام کا طریقہ کار طے کریں اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومت کو بھی سنجیدگی اور تسلسل سے کام کرنا ہو گا۔ بدقسمتی سے ایسا ہوتا نہیں ہے، کچھ وقت سوچا ضرور جاتا ہے لیکن یا تو ہم عملی اقدامات سے دور رہتے ہیں یا پھر سیاسی جوڑ توڑ میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ بلوچستان کی حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ اس دور جدید میں صوبے کے بنیادی مسائل کے دیرپا اور پائیدار حل کی بنیاد رکھے اور ان پر تیزی سے کام شروع کرے۔
جہاں تک تعلق ملک میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کا معاملہ ہے جیسا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے امن و امان کو سب سے اہم قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے خیبرپختونخوا بہت اہم صوبہ ہے۔ خیبرپختونخوا میں امن و امان برقرار رکھنے اور امن دشمنوں کو ٹھکانے لگانے کی کوشش میں دفاعی اداروں کے افسران و جوان قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے صوبے میں بدامنی کا ذمہ دار کے پی کے حکومت کو قرار دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں اگر خیبر پختونخوا حکومت کے عہدیدار دہشت گردوں کے سہولت کار بن جائیں تو کیسے دہشت گردی کا مقابلہ ہو گا؟ سیاست اپنی جگہ لیکن سکیورٹی مسائل پر ایک ہیں۔ ماضی کے چند فیصلوں کے باعث اب تک دہشت گردی سے نہیں نمٹ سکے۔
بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیان خیبر پختونخوا حکومت کے خلاف بالخصوص امن و امان کے معاملے میں چارج شیٹ ہے۔ چونکہ امن و امان کے معاملے میں کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ بلاول بھٹو نے جو کہا ہے مجھے امید ہے کہ یہ بیان جاری کرتے ہوئے بھی انہوں نے کوئی سیاست نہیں کی ہو گی۔کیونکہ یہ معمولی بات نہیں کہ ملک کے ایک صوبے میں حکومتی عہدیداروں کو دہشتگردوں کا سہولت کار قرار دے دیا جائے۔ ویسے خیبرپختونخوا میں امن و امان کے قیام کو سامنے رکھتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بات کریں تو وہاں دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے ہمارے جوان رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ صوبے میں رواں سال کے چھ ماہ کے دوران چھ سو چالیس انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دو سو ستانوے شدت پسند مارے گئے ہیں۔ ان آپریشنز کے دوران پانچ سو دس دستی بم، دو سو سترہ مار ٹرشیل، چونتیس آئی ای ڈی بم اور گیارہ ہزار چار سو ستانوے ایس ایم جی سمیت دیگر اسلحہ برآمد کیا گیا۔ اس دوران صوبے کے مختلف تیرہ اضلاع میں ہونے والے آپریشنوں میں ماہ جنوری میں 41، فروری میں 55 اور مارچ میں باون شدت پسند مارے گئے جب کہ اپریل اور مئی میں پچپن ، پچپن شدت پسند ہلاک ہوئے، اس کے علاوہ گزشتہ ماہ کے دوران انتالیس شدت پسند مارے گئے تھے۔ شمالی وزیرستان میں سب سے زیادہ ایک سو بارہ، ڈیرہ اسماعیل خان میں چھیالیس، ٹانک میں بتیس، لکی مروت میں تیس، خیبر میں چوبیس اور جنوبی وزیرستان میں اٹھارہ شدت پسند مارے گئے۔ آس کے علاوہ دیگر اضلاع میں بھی سکیورٹی اداروں کی کارروائیاں جاری رہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ سیاسی قیادت ان حالات کو جاننے کے باوجود ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کے معاملے تقسیم ہے۔ صرف خیبر پختونخوا میں گذشتہ چھ ماہ کے دوران اگر چھ سو چالیس انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز ہوئے ہیں تو یہ معمولی حالات نہیں ہیں۔ پھر بھی ہم اپنی اپنی سیاست کو بچانے میں لگے ہیں تو یہ ملک و قوم کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ 
ایک بہت دلچسپ خبر سانگھڑ سے ہے۔ جہاں ایک نوجوان خاتون کے بھیس میں درگاہ پر لڑکی سے ملنے آیا اور زائرین کے ہتھے چڑھ گیا بس اس کے بعد جو ایسے مواقع پر ہوتا وہ ہوا۔ لڑکی ملی یا نہیں ملی لیکن درگاہ پر ان کی درگت خوب بنی۔ کیا کمال کا ٹیلنٹ ہے، یہ بے وقوفی ہے یا بہادری، اتنا بے خوف تو نوجوانوں کو ملک و قوم کی تعمیر کے کاموں میں ہونا چاہیے۔ کاش کہ ملک کا نوجوان اپنے آپ کو پہچانے اور اس میں یہ احساس پیدا ہو کہ ملک کو اس کی کتنی ضرورت ہے۔ ان کاموں میں جوتے چھوڑ کر بھاگنے کے بجائے ایسے کام کریں کہ لوگ آپ کے نقش قدم پر چلیں۔ حکمران طبقے کو چاہیے کہ وہ نوجوان نسل کی رہنمائی کرے۔ 
آخر میں گلزار کا کلام
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
جینے کے لیے سوچا ہی نہیں، درد سنبھالنے ہوں گے
مسکرائیں تو مسکرانے کے قرض اتارنے ہوں گے
مسکراؤں کبھی تو لگتا ہے جیسے ہونٹوں پہ قرض رکھا ہے
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
آج اگر بھر آئی ہے بوندیں، برس جائیں گی
کل کیا پتا ان کے لیے آنکھیں ترس جائیں گی
جانے کب گم ہوا کہاں کھویا ایک آنسو چھپا کے رکھا تھا
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
زندگی تیرے غم نے ہمیں رشتے نئے سمجھائے
ملے جو ہمیں دھوپ میں ملے چھاؤں کے ٹھنڈے سائے
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں

ای پیپر دی نیشن