آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ناگزیر کیوں؟

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری تھی۔ہمارے وزیر خزانہ بڑے ماہر اور قابل ہیں انہوں نے کہا ہے کہ تلخ اور کڑوے فیصلے نہ کئے تو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔گذشتہ روز کوئٹہ میں بلوچستان کابینہ کے اجلاس اور ادلام آباد میں مرکزی اور صوبائی حکومت کے مابین زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن معاہدے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے مزید کہا کہ ملک کی بہتری کے لئے سخت فیصلے کر رہے ہیں۔ قرضوں نے ہماری نسلوں کو بھی گروی رکھ دیا ہے، قرضوں سے جان چھڑانے کے لیے وفاق، صوبے اور متعلقہ ادارے کام کریں گے تو آنے والی نسلیں دعائیں دیں گی۔ اگر تین سال بعد دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہوگا۔
حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے نجات حاصل کرنے کے حوالے سے بہت بیانات سامنے آچکے ہیں‘ قوم اب اس پر عملدرآمد ہوتا دیکھنا چاہتی ہے۔ جب تک آئی ایم ایف سے خلاصی نہیں پائی جاتی‘ مہنگائی سمیت پاکستان کسی بحران سے باہر نہیں نکل پائے گا۔ اپریل 2022ءمیں پی ڈی ایم کی حکومت بنی، جس کی سربراہی آج کے وزیراعظم محمد شہباز شریف ہی کر رہے تھے۔ ان کی طرف سے متعدد بار کہا گیا کہ معیشت کو مضبوط خطوط پر استوار کرنے کے لیے کڑے فیصلے کرنا پڑیں گے اور وہ کڑے فیصلے کئے بھی گئے جس سے مہنگائی کا نہ تھمنے والا طوفان اٹھا تھا۔ اس پر وزیراعظم اور ان کے رفقائکار کی طرف سے بار بار کہا گیا کہ ہم نے ریاست پر اپنی سیاست قربان کر دی ہے۔ بادی النظر میں عوام کی طرف سے کڑے فیصلوں کو خوش دلی سے قبول کیا گیا لہٰذا 2024ءمیں ہونے والے انتخابات میں عوام کی طرف سے ایک بار پھر انہی پارٹیوں پر اعتماد کا اظہار کر کے اقتدار میں لایا گیا جن کی طرف سے کڑے فیصلے کیے گئے تھے۔عوام کو امید اور غالباً ان کی یہ سوچ تھی کہ ان پارٹیوں نے سخت فیصلے کر لیے ہیں اب ان کے ثمرات عوام تک منتقل ہوں گے۔جس کے اس وقت کے اور آج کے حکمرانوں کی طرف سے وعدے کئے گئے تھے۔ مگر اب جو بیانات سامنے آ رہے ہیں ان سے عوامی ترقی اور خوشحالی کے وہ وعدے ” وعدہ فردا“ نظر آ تے ہیں۔کبھی وزیراعظم صاحب کڑے اور کڑوے فیصلے کرنے کی بات کرتے تھے۔ اب ان کے وزیر خزانہ کی یہ ریکوائرمنٹ بن گئی ہے۔وزیر خزانہ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ اگر بجٹ میں عائد کردہ ٹیکسوں کی وصولی نہ کی گئی تو آئی ایم ایف کے پاس پھر جانا پڑے گا جبکہ وزیراعظم اور اور یہی وزیر خزانہ یقین دلا چکے تھے کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہے۔
سب سے آسان کام ٹیکسوں میں اضافہ ہے۔ آج کل اس سے بھی آسان ہدف بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہے۔غریب اور متوسط طبقہ تو کجا اپر کلاس بھی بجلی کے آنے والے اوور بلوں سے نالاں ہے۔ناقابل برداشت بل بد ترین لوڈ شیڈنگ کے باوجود آرہے ہیں۔اب کہا گیا ہے کہ چھوٹے بجلی صارفین یعنی 200 یونٹ استعمال کرنے والوں کے ٹیرف میں کیا گیا اضافہ واپس لینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ بجلی کے نرخوں میں کیا گیا اضافہ واپس لے بھی لیا جائے گا یا یہ عوام کو لبھانے اور بہلانے والی بات ہے۔
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ امور مملکت چلانے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے۔وسائل کو لگنے والے نقب بند ہو جائیں ،اعلیٰ طبقات کو دی جانے والی بے جا مراعات پر قدغن لگا دی جائے تو تمام قرضے اترنے کے ساتھ پاکستان ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل کر سکتا ہے جس کے بعد وزیراعظم کو ڈوب مرنے جیسے جذباتی بیانات بھی نہیں دینا پڑیں گے۔رولنگ کلاس اوراشرافیہ کی مراعات ختم کر کے ان کو ٹیکس نیٹ میں کیوں نہیں لایا جاتا۔
حکومتوں کی جانب سے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے بارہا دعوے اور اعلانات کئے گئے ‘ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے بھی آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کرنے کو ترجیح دینے کی بات کی تھی مگر وہ اقتدار میں آنے کے کچھ ہی عرصہ تک مستقل مزاجی سے کام لے پائے اور پھر آئی ایم ایف سے رجوع کرتے ہی بنی۔پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے خلاصی کے دعوے کئے مگر وہ بھی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط من و عن قبول کرنے پر تیار ہوگئی۔ اب وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے قوم کو باور کرایا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس پھر جانا پڑا تو ڈوب مرنے کا مقام ہوگا مگر اسی سانس میں وہ یہ بھی عندیہ دے رہے ہیں کہ اگر کڑوے فیصلے نہ کئے تو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑیگا۔ وزیر خزانہ بھی یہ برملا کہہ چکے ہیں کہ ہمارے لئے معیشت کی دگرگوں حالت کے پیش نظر آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ جانا ناگزیر ہے۔ جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ فی الحال قوم کی آئی ایم ایف سے خلاصی ممکن نظر نہیں آرہی۔ بے شک معیشت کی بہتری کے لئے آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں سے معاونت ہماری مجبوری بن چکی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان سے لئے گئے قرضوں سے نہ معیشت میں بہتری آئی ہے اور نہ مہنگائی پر قابو پایا جا سکا ہے۔ قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ان مالیاتی اداروں سے اب تک لیا گیا قرض کہاں خرچ کیا گیا۔ 
عوام کو حقیقی ریلیف ملے گا تو ہی وہ مطمئن ہوں گے۔وزیراعظم شہباز شریف جب وزیر اعلیٰ پنجاب تھے ان کی طرف سے بار بار خونیں انقلاب کی بات کی جاتی تھی۔ آج عوام کی مہنگائی بے روزگاری خصوصی طور پہ بجلی کے بلوں نے جو حالت کر دی ہے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق راستے اسی طرف جاتے نظر آتے ہیں جن کا تذکرہ شہباز شریف چند سال پہلے کیا کرتے تھے۔ایسے راستوں کا رخ عوام کو ریلیف دے کر ہی موڑا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن