دنیا کے تمام ممالک میں سکیورٹی کے نام پر گفتگو ٹیپ کی جاتی ہے۔ پاکستان کی ٹیپ کہانی بھی بڑی پرانی ہے۔ پاکستان کے صدر سکندر مرزا نے مارشل لا کے نفاذ کے بعد اپنے قریبی عزیز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت جلد آرمی چیف جنرل ایوب خان سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے ان کی یہ گفتگو سننے کے بعد آرمی چیف جنرل ایوب خان نے تین جرنیل بھیج کر سکندر مرزا سے جبری استعفیٰ لے لیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد ائیر مارشل رحیم اور آرمی چیف جنرل گل حسن کی گفتگو ٹیپ کی گئی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ان کا خیال تھا کہ فوج کو دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے دو سال انتظار کرنا پڑے گا مگر حالات جس انداز سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ ان کے خیال میں فوج چھ ماہ بعد ہی اقتدار سنبھال لے گی۔ اس گفتگو کے بعد ائیرمارشل رحیم اور آرمی چیف جنرل گل حسن کو جبری ریٹائر کردیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے جس طرح بھٹو کو سزا دلانے کے لئے عدلیہ پر دباو ڈالا اس کو جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں محفوظ کر دیا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ ملک عبدالقیوم اور میاں شہباز شریف کی گفتگو کی ٹیپ کی بازگشت آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے جسٹس ملک عبدالقیوم سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو دس سال کی سزا دی جائے۔ جب یہ ٹیپ بے نظیر بھٹو کو ملی تو انہوں نے گریس اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ٹیپ کے بارے میں سپریم کورٹ کو مطلع کردیا جس کے نتیجے میں جسٹس ملک عبدالقیوم کو مستعفی ہونا پڑا اور ان کی سنائی ہوئی سزا کالعدم قرار دے دی گئی۔ ریاستی اداروں کے سلسلے میں پی پی پی کا رویہ اور کردار بڑا مثبت اور حب الوطنی پر مبنی رہا ہے۔افسوس میاں شہباز شریف نے عوام سے اپنی غلطی کی معافی بھی نہ مانگی۔مسلم لیگ نون کی قیادت کو ایک سرگرم کارکن اور میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی ناصر بٹ کی جانب سے ایک ٹیپ ملی جس میں مبینہ طور پر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک یہ کہہ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کو سزا دینے کے سلسلے میں ان پر دباؤ تھا اور یہ دباؤ ان کو بلیک میل کرکے ڈالا گیا۔ شواہد اور ریکارڈ کے مطابق میاں نواز شریف کی سزا نہیں بنتی تھی مگر دبائو کی وجہ سے ان کو یہ سزا سنانی پڑی۔ خفیہ گفتگو پر مبنی یہ ٹیپ اگر قانون اور انصاف کی نظر میں اہمیت کی حامل ہوتی تو مسلم لیگ نون کی قیادت بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح اسے سپریم کورٹ میں پیش کر کے ریلیف حاصل کرتی۔ چونکہ ماہرین قانون کی نظر میں یہ ٹیپ عدالتی اور قانونی اہمیت کی حامل نہیں تھی اس لیے مسلم لیگ نون کی قیادت نے سیاسی دباؤ بڑھانے کے لیے اسے عوام کی عدالت میں پیش کر دیا۔ محترمہ مریم نواز شریف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس اور بھی بڑی حساس نوعیت کی ٹیپس موجود ہیں جو وقت آنے منظر عام پر لائی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کے باشعور عوام کو پورا ادراک ہے کہ مسلم لیگ نون کی قیادت ہر صورت اپنے مرکزی رہنما میاں نواز شریف کو جیل سے رہا کرانے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ اس سلسلے میں عدالتی اور قانونی کوشش کی جا چکی ہے جبکہ اسلامی ملکوں کے سربراہوں کو بھی حمایت اور تعاون پر آمادہ کرنے اور موجودہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی جس کا انکشاف خود وزیراعظم پاکستان نے اپنے ایک بیان میں کیا ۔ وزیراعظم عمران خان کی ثابت قدمی کی وجہ سے ہی مسلم لیگ نون کی قیادت اس نتیجے پر پہنچی ہے جب تک ریاستی اداروں کو سکینڈلائز نہ کیا جائے اور موجودہ حکومت پر سیاسی دباؤ نہ بڑھایا جائے۔ مسلم لیگ نون کی قیادت کا احتساب سے بچنا ممکن نہیں ہوگا ۔چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں پی پی پی کی قیادت بھی شامل ہے۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے محترمہ مریم نواز کی جانب سے پیش کی گئی ٹیپ کو جعلی اور بے بنیاد قرار دیا ہے اور باضابطہ طور پر ایک پریس ریلیز جاری کر کے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران ان کو رشوت کی پیشکش بھی کی گئی اور دھمکیاں بھی دی گئیں۔ جج ارشد ملک نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اس کے بارے میں تحقیقات کرائی جائیں۔ بدقسمتی سے ملکی تاریخ میں ریاستی ادارے ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال دیتے ہیں کوئی اور ملک ہوتا تو ٹیپ کے بعد جج کو کام سے روک دیا جاتا اور ٹیپ کے جعلی یا اصلی ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا۔ مفاد پرستی کے کلچر میں نیشنل ازم کی روح نہیںہوتی۔حکومت وقت نے گو مگو کی پالیسی کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں عدلیہ جو بھی اقدام اٹھائے گی‘ حکومت عدلیہ کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔
وزیراعظم کے ترجمان نے کہا ہے کہ ریاستی اداروں کے خلاف گمراہ کن اور بے بنیاد پراپیگنڈہ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ریاستی اداروں کا دفاع منتخب حکومتوں کی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے مگر پاکستان کی تاریخ شاہد ہے اس سلسلے میں حکومتوں کا کردار عملی طور پر سرد مہری کا شکارہی رہا ہے۔ ریاستی اداروں کے دفاع کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اگر خدا نخواستہ ریاستی ادارے عوام کی نظروں میں متنازعہ بن گئے اور ان کا وقار مجروح ہو گیا تو پاکستانی ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ریاستی اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے امیج اور وقار کو اہمیت دیں اور آنکھیں بند نہ کریں تاکہ کوئی فرد گروہ جماعت یا بیرونی خفیہ ایجنسیاں ان کے وقار کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کر سکیں۔ ریاستی ادارے اپنی سرگرمیوں کو آئینی حدود کے اندر رکھیں۔ سینٹ کے سابق چیئرمین جناب رضا ربانی اور چیف جسٹس محترم آصف سعید کھوسہ نے ریاستی اداروں کے درمیان قومی ڈائلاگ کی جو تجویز پیش کی تھی وہ انتہائی موزوں برموقع اور بروقت تھی۔ پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کا یہ فرض ہے کہ وہ ریاست کی سلامتی اور سیاسی استحکام کی خاطر اس صائب تجویز پر پیش رفت کریں۔ قومی معاملات کو التوا میں ڈالنے کی مجرمانہ غفلت پہلے ہی پاکستانی قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکی ہے اور مزید نقصان کی کوئی گنجائش موجود نھیں ہے۔ حکومت نے پاکستانی ریاست کو معاشی بحران سے باہر نکالنے کے لئے سخت اور مشکل اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کے تجارتی حلقوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ پچھلے چند ماہ سے حکومتی ادارے این جی اوز کے ایما پر پلاسٹک بیگ انڈسڑی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اس انڈسٹری کو بند کرنے کے لئے قانون سازی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سامراج کی یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کی زراعت اور صنعت کو اپنے پاوں پر نہ کھڑے ہونے دیا جائے تاکہ یہ صارفین کی منڈی بن کر دوسرے ملکوں کا مرہون منت رہے پلاسٹک بیگ انڈسٹری میں پاکستانیوں نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اس صنعت کے ساتھ بالواسطہ اور بلا واسطہ طور پر ایک کروڑ افراد وابستہ ہیں۔ اس کا شمار پاکستان کی پانچ بڑی صنعتوں میں ہوتا ہے جو قومی خزانے میں سب سے زیادہ ٹیکس جمع کراتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق شاپنگ بیگ ایسوسی ایشن نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ حکومتی ادارے ان کا مؤقف بھی سنیں تا حال ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی پلاسٹک انڈسٹری سے وابستہ ہزاروں خاندانوں کا روزگار داؤ پر لگا ہوا ہے اور وہ گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ نوجوانوں کو کروڑوں روزگار فراہم کریں گے۔ اگر پلاسٹک انڈسٹری خدانخواستہ بند ہوگئی تو اس سے لاکھوں نوجوان بے روزگار ہو جائیں گے اور وزیر اعظم کا خواب کبھی پورا نھیں ہو سکے گا۔ ریاست اور شہریوں کے مفاد کا تقاضہ ہے کہ پلاسٹک بیگ انڈسٹری کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024