قارئین آج 10 دسمبر کو دنیا بھر میں حقوق انسانی کا ’’عالمی یوم‘‘ منایا جارہا ہے، ہر طرف ہر انسان پر دوسرے انسان کے حقوق کی فراہمی اور بحالی کی بات کرتا نظر آئے گا، پرُجوش نعرے لگیں گے، اجتماعات اور تقاریر ہونگی، دورِ جہالت کا موازنہ و مقابلہ موجودہ جدید دور کے ساتھ ہو گا لیکن ہو گا وہی کچھ جو کچھ ہوتا رہا ہے پوری دنیا میں مسلم امہ کا خون محض مسلمان ہونے کے جرم میں جس طرح بہہ رہا ہے، عالمی دہشت گرد امریکہ اس کے بہائو میں ذرا بھر رکاوٹ نہیں ڈالنے دے گا بلکہ ہمارا تو ایک ہی اندازہ ہے کہ جب تک مسلمانان عالم کا آپس میں آہنی اور آئینی اتحاد نہیں ہوگا تب تک حالات اسی طرح دگرگوں رہیں یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جس کے لئے عالم اسلام کی مجموعی اور مشترک سوچ بروئے کار آنی چاہئے۔
جہاں تک وطن عزیز میں ہر سال ایام منانے کا تعلق ہے تو وہ اس نیکی سے کیونکر تائب رہ سکتا ہے؟ بلکہ ہم پاکستانی تو نام نہاد دن منانے میں کچھ زیادہ ہی شیر واقع ہوئے ہیں اگر ایسے دنوں کو بطور دن منانے سے پہلے عملی طور پر تین سو چونسٹھ دنوں میں اور کچھ نہیں کر سکتے تو کیا ایک دن بھی نہ منائیں! پھر دن منانے کونسے مشکل ہیں اﷲ نے دن بنائے، ہم نے منائے، نہ زور لگا نہ زر لگا، بالا بالا زبانی کلامی حقوقِ انسانی کے بارے میں دو بول جھاڑ کر ان کی عملی تکمیل کردی، فرض سے شتابی فارغ ہوئے ،
اخبار میں تصویر چھپی، نام کی پتنگ اڑ گئی، واہ واہ ہو گئی، کہ فلاں درد مند نے یہ نکتہ حقوق انسانی کے حوالے سے اٹھا دیا، وہ راز برملا کہہ دیا اﷲ اﷲ خیر سلا، ہاں من حیث القوم عملاً حقوق کو فرائض اور فرائض کو حقوق سمجھ کر ادا کرنا پانی پِتہ کرنے کے مترادف ہے وہ کوئی کیوں کرے؟ بنیادی طور پر ہم سب کو بس ایک ہی فارمولے کو آنکھوں کا سرمہ بنا کر اپنی بصارت اور بصیرت کو تیز کرنا ہے جو بابائے انسانیت و جمہوریت امریکہ نے طے کردیا ہے وجہ معلوم، اس کے سامنے ہم سب کی جگہ سب سے پچھلی قطار میں ہے۔ اپنی فوج کو حکم دیا افغانستان کو لہولہان کردو، کشمیر اور فلسطین کو سانس نہ لینے دو، عراق میں ہزاروں بچوں کو دودھ اور دوا کی بندش سے موت کے منہ میں دھکیل دو‘ افریقی قحط زدہ بچوں کے منہ کی خوراک دریائوں کے منہ میں ڈال دو بعد میں ’’یوم فلاح اطفال‘‘ اور حقوق انسانی کا عالمی دن منالیں گے، شگاگو کے فاقہ کش مزدوروں پر اندھی گولی چلی ساتھ ہی ’’یوم مئی‘‘ ایجاد ہو گیا، غریب ممالک کو معیاد بھگتی دوائیاں بھجوا کر موت کے منہ میں دھکیلنے کے بعد ’’عالمی ادارہ صحت ہے‘‘ ’’یوم صحت‘‘ منانے کا اعلان کردیا، یوں عالمی ایام منانے کا شوق پورا ہوگیا بلکہ ہورہا ہے، ہوتا رہے گا۔ ہر طرف انسانی خون کے پرنالے بہنے کے باوجود حقوق انسانی کا عالمی دن ڈنکے کی چوٹ پر منایا جاتا ہے۔ ادھر ہمارے ملک میں بھی قومی سطح پر بہت سے دن منائے جاتے ہیں نہ منائے جاتے تو ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ وطن عزیز میں فلاں فلاں خرابیاں ہیں جنہیں ہم محض ایک ’’یوم‘‘کے ٹارگٹ پر انتہائی پھرتی سے ختم کر دیتے ہیں ویسے دیکھا جائے تو آزادی کے بعد تعلیمی، سیاسی اور اخلاقی سطح پر ہمارا ہر دن، دن منانے والاہی گذرا ہے کیونکہ انہی تین حوالوں سے ہماری شہرت ماشاء اﷲ عالمگیر ہے تاہم چند دنوں کا حوالہ ضروری ہے مثلاً ہفتہ صفائی کی خبر ہمیں ریڈیو، ٹی وی دیتا ہے، ’’انسانی حقوق‘‘ کا تہوار ہمارے ملک میں سالانہ نہیں روزانہ منایا جاتا ہے جس کی اطلاع ہر اخبار گذیدہ کو صبح صبح مل جاتی ہے جس کے بعد وہ سوچتا ہے اگر ’’حقوق نسواں‘‘ کا یوم بھی اسی دن کے ساتھ منا لیا جاتا تو ایک یوم مزید کسی اور یوم منانے کے کام آجاتا اور عوام کو بھی ایسی خبروں سے ایک دن کا فاقہ افاقہ مل جاتا ہے لیکن چونکہ ’’حقوق نسواں‘‘ اور ’’حقوق انسان‘‘ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے لہذا یہ دو تہوار الگ الگ منائے جاتے ہیں حالانکہ ’’حقوق نسواں‘‘ کی تکمیل کی اطلاع ہمیں ہر روز ان کی سوختگی، چہرے پر تیزاب ڈالنے، گلے میں پٹہ ڈال کر سرعام گھمانے اور چار دیواری کے اندر انکے ہزاروں بے نام روحانی، نفسیاتی اور جذباتی قتل کے اعداد و شمار سے بھی ہو جاتی ہے بعینہ جب خواندہ لوگ ناخواندگی کا دن خواندگی کے نام سے مناتے ہیں تو اس کے اعداد و شمار سے اصل رپورٹ ہمیں عالمی ادارہ دیتا جس سے خوش ہو کر ہم ملک میں سکولوں کا مزید جال بچھانے کا کام لیتے ہیں۔ ایک دن ہم ’’قائداعظم کی پیدائش‘‘ کا بھی مناتے ہیں لیکن دن منانے سے پہلے ہم انکی تصویر اسمبلی کی دیوار سے اتار کر پھینک دیتے ہیں تاکہ وہ ہماری یہ حرکت نہ دیکھ سکیں۔ دفتروں میں بھی ان کی تصویر احتراماً افسران اپنی پشت کی طرف لگاتے ہیں تاکہ وہ انکے سامنے ملک دشمنی کا کوئی کام نہ کر سکیں یوں انکے اقوال کی تکمیل و تکریم کاعملی مظاہرہ بلکہ چارہ کیا جاتا ہے۔ مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کی پیدائش کا دن بھی ہم بہت ہی عزت سے مناتے ہیں، انکے ترانے گاتے ہیں، مزار پر پھول چڑھاتے ہیں البتہ صرف ان کے افکار و اشعار شاہین بچوں کے دل و دماغ سے محو ہو گئے ہیں اسی معمولی بھول چوک کی بناء پر وہ اپنے دن کا آغاز حمد و نعت کی بجائے ٹی وی پہ انڈین فلمیں دیکھنے اور انکے گانے اور بھجن سننے سے کرتے ہیں ان کا لہو کب گرم ہو گا؟ اور وہ جھپٹ اور پلٹ کر دشمن کے دانتوں سے اپنی شہ رگ کشمیر چھڑوا لینگے اس کا ابھی تعین نہیں ہو سکا۔ (جاری)
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024