این اے حلقہ 120 نواز شریف کا کھمبا ہے۔ گو کہ "کھمبا" کمزور ہو چکا ہے لیکن اس میں کرنٹ ابھی باقی ہے۔ مریم کے گھر گھر جانے سے پندرہ بیس ہزار ووٹوں سے برتری کا امکان موجود ہے۔ نواز شریف کے جدّی پشتی حلقہ سے پندرہ بیس ہزار ووٹوں سے برتری کو ناکامی تصور کیا جائے گا۔ 2013 عام انتخاب میں نواز شریف بذات خود کھڑے تھے تب پچاس ہزار ووٹوں سے برتری پر تشویش کا اظہار ہوا جبکہ حالیہ صورتحال بر عکس ہے۔ نواز شریف کی مقبولیت متاثر ہوئی ہے بلکہ فضا نواز شریف کے خلاف چل دی ہے۔ "مجھے کیوں نکالا" مذاق بن چکا ہے۔ اور کلثوم نواز کے حلقہ سے مہم نہ چلانے سے ووٹ مزید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے اس کے باوجود کلثوم نواز یہ سیٹ جیت جائیں گی۔ ان کی بیماری جتوانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ مد مقابل ڈاکٹر یاسمین راشد تکڑی امیدوار ہیں۔ مقابلہ سخت ہے۔ کھمبا کو ووٹ ڈالنے والے روائتی ووٹروں کی بھی کمی نہیں۔ مریم نواز کی کوشش ضرور رنگ لائے گی۔ باپ بے قصور نااہل قرار دے دیا گیا، ماں کینسر میں مبتلا ہو گئی، شوہر پر پندرہ سو ریال میں سسر کی ملازمت کا الزام لگ گیا، بھائیوں پر کرپشن کے الزامات دھر دیئے گئے، اتنے دکھ لے کر آبائی علاقے پہنچی ہوئی مریم کو ووٹ تو ملیں گے۔ لاہوری خدا ترس بھی ہیں اور یادداشت بھی کمزور پائی ہے۔ یکم جولائی 2011 کو شیخ علی ہجویری رحمت اللہ المعروف داتا دربار کے مزار پر ہولناک خود کش حملہ ہوا۔ ناقابل فراموش سانحہ رونما ہو گیا۔ اہلیان لاہور خون کے آنسو رو رہے تھے۔ میں ان دنوں لاہور موجود تھی۔ سانحہ عظیم کے چند روز بعد مزار شریف پہنچی۔ گوالمنڈی کے باسیوں کا دکھ رو برو سنا اور دیکھا۔ میاں نواز شریف واقعہ کی تعزیت کرنے اپنے پرانے علاقے نہ پہنچ سکے۔ داتا دربار پر زائرین نے نواز شریف کے خلاف سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج شریف خاندان کے پاس جو کچھ ہے داتا صاحب کی دعاﺅں کا صدقہ ہے لیکن میاں صاحب مدت ہوئی دربار حاضری دینے نہیں آئے۔ اس سانحہ پر بھی نہیں آئے تو اب داتا دربار والے بھی انہیں بھول جائیں گے۔ آج والدہ کے نام پر ووٹ اکٹھے کرنے کے لئے 2017 میں مریم صفدر نے گوالمنڈی کے مزاروں درباروں اور کلیساﺅں پر حاضری دی ہے۔ ضرورت اور مجبوری ہر جگہ لے جاتی ہے۔ چوہدری نثارعلی خان نے ایک نجی چینل پرکہا ہے کہ مریم نواز کا بینظیر بھٹو سے موازنہ درست نہیں، دونوں میں زمین و آسمان کافرق ہے، بینظیر بھٹو نے جیلیں کاٹیں اورصعوبتیں برداشت کیں۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ مریم نواز کو پہلے عملی سیاست میں حصہ لےکر خودکو ثابت کرنا ہوگا، بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں،انہیں لیڈر کیسے مانا جا سکتا ہے، بچے بچے ہوتے ہیں ان کو لیڈر نہیں مانا جا سکتا، مریم نواز کا کردار صرف میاں نواز شریف کی بیٹی ہونا ہے۔۔۔ ہم نے چند ماہ پہلے لکھا تھا کہ شریف خاندان میں بیٹیوں کا معاملہ زیادہ نازک تصور کیا جاتا ہے۔ بیگم کلثوم کو بھی حالات نے باہر نکلنے پر مجبور کیا تھا اور وہ تجربہ بیگم کلثوم زندگی بھر فراموش نہیں کر سکتیں۔ بیٹوں کو سیاست سے دور رکھا گیا اور بیرون ملک سیٹ کر دیا جبکہ بیٹی مریم کو سیاست میں عملی طور پر قدم رکھنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ حکومتی نظام کی منتظمہ بنا دیا۔ پاکستان کا معاشرہ جب گندگی کی طرف آئے تو بہو بیٹیوں کا احترام بھول جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کا خاندانی پس منظر لبرل تھا۔محترمہ بے نظیر کی پرورش لبرل والدین اور ماحول میں ہوئی ، ان کا سیاست میں قدم رکھنا باپ کی پھانسی وجہ بنا۔ محترمہ نے آزاد مغربی ماحول سے پاکستان کے تنگ مشرقی ماحول میں خود کو ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی۔ الا ماشاءاللہ گندے ذہنوں نے پھر بھی نہ بخشا۔ حتی کہ محترمہ کی لبرل ماں کو بیٹی کی روایت کے مطابق شادی کرنا پڑی۔ پاکستانی معاشرے کا منہ بند کرنے کے لئے محترمہ نے آصف زرداری جیسے شوہر کے ساتھ نبھا کیا۔ میاں شریف کے خاندان کا معاملہ برعکس ہے۔ نہ شریف خاندان لبرل ہے اور نہ پیپلز پارٹی جیسی وجہ شہرت کا متحمل ہے۔ شریف خاندان مسلم لیگ، روایتی مذہبی اور مشرقی اقدار کا قائل ہے۔ ان کے ہاں بہو بیٹیوں سے متعلق بیہودہ زبان اور الزامات کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ میاں نواز شریف کو بیٹی کو دلدل میں اتارنے کا فیصلہ پارٹی کے لئے نقصان دہ ہے۔ مسلم لیگی بظاہر کتنے آزاد خیال نظر آنے کی کوشش کریں، عورت کے معاملہ میں تنگ نظر تھے‘ ہیں اور رہیں گے۔
٭٭٭٭٭
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024