مکرمی! یہ 1970ءہے۔ الیکشن کمشن کے زیر اہتمام ہونے والے انتخابات میں مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے مغربی پاکستان کی پاکستان پیپلز پارٹی سے دگنے ووٹ جیت کر قومی اسمبلی کی 160 نشیستیں حاصل کی ہیں۔حکومت بنانے کے لیے 151 نشیستیں حاصل کرنا ضروری ہے جس ہدف کو عوامی لیگ بغیر کسی اتحادی کے پہنچ چکی ہے۔63.1% کے turnout میں سے 39.2% ووٹوں کے ساتھ عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی ہے اور یوں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان پاکستان کے نئے منتخب وزیراعظم ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن پھر انتخابات کی واضح اکثریت کو حکومت بنانے کی اجازت نہ دی گئی۔ ایک ملک کے دو وزرائے اعظم جیسی مضحکہ آمیز بات ہونے لگی اور یوں عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کرتے ہوئے نفرت اور تفرکہ کے بیج ایک ایسی قوم میں بو دئیے گئے جس کا ہر ہر دُکھ سانجھا تھا۔ نفرت اتنی بڑھی کہ بات علیحدگی تک جا پہنچی اور ایک ایسی قوم کی وحدت پاش پاش ہو گئی جس نے دو قومی نظریے کی خاطر لاکھوں پیاروں کا نذرانہ دیا تھا۔ یہ سب کچھ اقتدار کی ہوس اور ایک منتخب وزیراعظم کو نہ ماننے کی وجہ سے ہوا۔ 44 سال گزر جانے کے بعد تاریخ آج اپنے آپ کو دہرا رہی ہے‘ جب ہزاروں کی تعداد میں افراد عوامی مینڈیٹ کا قتل عام کرنے سڑکوںاور شاہراہوں پر موجود ہیں اور پھر ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اقتدارکی اسی ہوس کے نتیجے میں پاکستان پہلے بھی دولخت ہوا تھا اور آج پھر ’نیا پاکستان‘ بننے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ کیا پاکستان کی آزادی کے 67 برس بعد بھی ہم ہوس کی ہی جنگ لڑ رہے ہیں؟ اور کیا آج پھر پاکستان کا ایک بازو کاٹ کر ”نیا پاکستان“ بننے لگا ہے؟کیا ہمیں پھر یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ تخت شاہی کا طلب گار تخت دار پر جھلا دیا گیا تھا؟(عروشہ عامر خان ۔ لاہور)
"حادثہ ایک دَم نہیں ہوتا"۔
May 10, 2024