شکیل تنولی کا قتل اور نظام انصاف

امر اجالا
اصغر علی شاد
shad_asghar@yahoo.com
 اس امر سے تو سبھی بخوبی واقف ہیں کہ 08 جون 2022 کو تھانہ کھنہ اسلام آباد کی حدود میں ایک گاڑی کی ٹکر سے شکیل احمد اور حسنین علی جاں بحق ہو گئے۔ عدالتی ریکارڈ میں دستیاب تفصیلات کے مطابق دنوں شہری آدھی رات کو گھر جا رہے تھے کہ انہیں ایک خاتون ڈرائیور نے گاڑی سے ٹکر مار دی اور گاڑی چھوڑ کر موقع سے فرار ہوگئی۔ یاد رہے کہ مذکورہ خاتون ڈرائیور اعلیٰ عدلیہ کے ایک سینئر جج کی صاحبزادی ہیں۔دوسری جانب مبصرین کے مطابق اس امر میں یقینا کوئی شبہ نہیں کہ شخصی آزادی کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی فرد کی آزادی قومی سلامتی اور ملکی سالمیت کے لئے جب خطرے کا سبب بننے لگے توذاتی آزادی یقینا پس پشت چلی جاتی ہے اور قومی سلامتی کو پہلی ترجیح حاصل ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔
    اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ پچھلے چند ماہ سے آڈیو اور ویڈیو لیکس سکہ رائج الوقت بن چکی ہیں اور اس ضمن میں قومی سطح پر ایسے ایسے انکشاف سامنے آرہے ہیں جن کا تصور بھی کچھ عرصہ پہلے تک محال تھا مگر آفرین ہے ایسی شخصیات پر کہ وہ ریاست کے اعلیٰ آئینی عہدوں پر براجمان ہونے کے باوجود اس امر میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے کہ قومی مفادات کو آگے رکھنے کی بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو مدنظر رکھیں بھلے ہی اس کے نتیجے میں ملک کو کتنا ہی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ 
    اس امر کی ایک مثال تو کچھ برس قبل تب سامنے آئی تھی جب سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور شاہ محمود ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ”ابھی تو ہم نے اس سے مزید کھیلنا ہے“۔دوسری طرف پچھلے چند ہفتوں میں منصفی کے اعلیٰ منصب پر فائز شخصیات کے قریبی عزیز و ں کی باہمی گفتگو کی آڈیو لیکس بھی منظر عام پر آچکی ہیں جن کی بابت ہر کوئی بخوبی آگاہ ہے۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ان کی بابت یہ عذر تراشا جارہا ہے کہ یہ سب آزادی اظہار ہے اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔
حالانکہ کسے نہیں پتہ کہ جب امریکہ میں 9/11کا سانحہ پیش آیا تھا تو وہاں کی سول سوسائٹی اور حکومت نے کیسا ردعمل دیا تھا علاوہ ازیں جب برطانیہ میں 7/7کی دہشتگردی ہوئی تو وہاں کی ریاست نے کس طورفوری طور پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ہر قسم کی شخصی آزادیاں ختم کر دی تھیں۔ایسے میں وطن عزیز میں 9مئی کے سیاہ ترین دن کو ہونے والی دہشتگردی اور شر پسندی کو معمول کی کاروائی سمجھ کر نظر انداز کر نا کہاں کا انصاف ہے۔توقع کی جانی چاہیے کہ اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جائیں گے تاکہ ایک جانب مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے البتہ اس معاملے میں کسی بے گناہ کو نقصان نہ پہنچے۔
مبصرین کے مطابق کپتان اور ان کے ہمدرد غالبا اس امر کو فراموش کر بیٹھے تھے کہ پاکستان میں پاک افواج کے ساتھ عوام کی بھاری اکثریت دل و جان سے محبت کرتی ہے اور مسلح افواج کے امیج پر کوئی بھی آنچ آئے تو بھلا عام پاکستانی کیسے لاتعلق رہ سکتا ہے کیوں کہ سبھی جانتے ہیں کہ اللہ کی مہربانی کے بعد پاک افواج ہی ملک وقوم کو ہر قسم کی آفت سے محفوظ رکھنے کی ضامن ہے۔زمانہ امن ہو یا جنگ،زلزلہ ہو یا سیلاب،مشکل کی ہر گھڑی میں ہو قوم کے شانہ بشانہ موجود ہوتی ہے اور پھر 9مئی کو تو جو دلخراش سانحہ پیش آیا اس دوران ایک مخصوص حلقے نے جس طرح لاہور کے جناح ہاو¿س،میانوالی میں ایم ایم عالم کے تاریخی جہاز کو جلانے کی ناپاک سعی کی،جی ایچ کیو میں وحشت کا ماحول پیدا کیا،پشاور میں ریڈیو کی تاریخی عمارت کو جلایا گیا،، یہ اپنے آپ میں بدترین دہشتگردی کی مثالیں ہیں جن کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ایسے میں انصاف کے اعلیٰ منصب پر فائز شخصیات کو بھی سوچنا ہوگا کہ اگر پاکستان ہے تو ہم سب ہیں ورنہ کچھ نہیں۔
گویا
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنان شہر 
اتنے نہ در بناو¿ کہ دیوار گر پڑے
یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ پرائیوسیی اور آزادی رائے کے نام پر بعض دانشور یہ بھول بیٹھے ہیں کہ خدا نہ کرئے کہ کسی قوم کی آزادی سلب ہو جائے تو پھر اس کا حشر وہی ہوتاہے جو مقبوضہ کشمیر کے نہتے شہریوں اور بھارت میں موجود مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا ہو رہا ہے۔بدقسمتی سے اس کے باوجود تا حال کچھ گروہ اپنی منفی روش پر قائم ہے گویا
خوش فہمیوں کے سلسلے اتنے دراز ہیں 
ہر اینٹ سوچتی ہے کہ دیوار مجھ سے ہے
اس ضمن میں یہ امر بھی پیش نظر رہے تو بیجا نہ ہو گا کہ کپتان صاحب اور ان کے ہم رکابوں نے ملک کے اندر تقسیم در تقسیم کا ماحول پیدا کرنے میں اپنی پوری توائیاں صرف کی ہیں گویا
تقسیم بھی تقسیم نہیں لگتی کسی کو 
دیوار اٹھانے کا سلیقہ ہے تیرے پاس 
مگر انتہائی حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی بہت بھاری اکثریت نے پچھلے ایک ہفتے میں اس امر کو اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کی فوج اور عوام ایک دوسرے کیساتھ لازم و ملزوم ہیں اور انشااللہ رہیں گے۔یہ بھی کھلا سچ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ یہ قومی سلامتی کے ادارے ہی تھے جن کے کندھوں پر سوار ہو کر موصوف نے اپنے عروج کی منزلیں طے کی تھیں جنہیں آج وہ برا بھلا کہتے نہیں تھکتے اور لوگوں میں قومی سلامتی کے اداروں کیخلاف نفرت پھیلاتے رہے اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور دیگر اداروں میں اعلانیہ فوج کیخلاف پروپیگنڈہ کرتے رہے اور کہتے رہے کہ بیٹا ارسلان اس کو بھی غداری سے جوڑ دو لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ
دریا کے تجاوز کا برا ماننے والے 
دریا کا ہی چھوڑا ہوا رقبہ ہے تیرے پاس

ای پیپر دی نیشن