منگل‘ 2 محرم الحرام 1446ھ ‘ 9 جولائی 2024

پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں سرکاری سکولوں کے طلبہ کو دودھ اور کھانا ملے گا۔
ایسے اعلانات بہت اچھے لگتے ہیں مگر فائدہ تب ہی ہوتا ہے کہ ان پر عمل بھی ہو۔ پہلے بھی لڑکیوں کے لیے دودھ اور ناشتہ کا اعلان ہوا تو اس کا کیا بنا۔ دودھ سکول انتظامیہ اور مقامی انتظامیہ ہڑپ کر جاتی ہے۔ ناشتہ کا تو ذکر ہی نہ کریں۔ اب موجودہ حکومت کی گڈگورننس کے لیے یہ امتحان ہے اور دیکھنا ہے کہ وہ کس طرح اس پر پورا اترتی ہے۔ جب تک یہ پرائیویٹ سکولوں کی جونکیں تعلیم کو نہیں چمٹی تھیں اس وقت تک واقعی سرکاری سکول اعلیٰ تعلیم کے مراکز تھے۔ پھر تعلیم کے ساتھ سب سے بڑی دشمنی یہ کی گئی کہ نجی تعلیمی اداروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے عوام کی توجہ ان کی طرف مبذول کر دی گئی۔ یہ ادارے تعلیم کے نام پر تجارت کرنے لگے اور آج عوام اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ سرکاری سکولوں پر ان کو اعتماد نہیں رہا اور نجی سکولوں کی وہ فیس اور کتابوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ اگرچہ سرکاری سکولوں میں تعلیم مفت ہے۔ کئی سکولوں میں تو یونیفارم اور کتابیں بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں مگر ابھی تک لوگوں کا اعتماد بحال نہیں ہو سکا۔ اب اگر پنجاب حکومت اسی طرح سکولوں کی حالت اور تعلیمی معیار کو بہتر بنائے تو والدین کی بڑی تعداد مفت تعلیم فراہم کرنے والے ان سکولوں کی طرف لوٹ آئے گی۔ یہ کوئی احسان نہ ہو گا۔ بچوں کو مفت اور اچھی تعلیم دینا تو ہر فلاحی ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس طرح تعلیم کے نام پر تجارت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی کیونکہ وہاں نہیں، سرکاری سکولوں میں معیاری اور سستی تعلیم حاحل ہو سکتی ہے۔ بس حکومت ذرا توجہ دے اور سختی سے نگرانی کرے تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ 
سندھ میں علاج کے لیے پیسے نہ ہونے پر باپ نے بچی کو زندہ دفن کر دیا۔
نوشہرو فیروز میں یہ واقعہ صوبائی حکومت کے لیے تازیانہ عبرت ہے جہاں ایک طرف تو حکومت کروڑوں روپے کی اشتہار بازی کر کے صوبے میں طبی سہولتوں کے حوالے سے اپنی اعلیٰ کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے اور دوسری طرف عام آدمی کے پاس علاج کی کوئی سہولت ہے نہ پیسے۔ خود بلاول صاحب نے بھی گزشتہ روز کوئٹہ میں سندھ میں اعلیٰ ہسپتالوں میں مفت علاج کے حوالے سے کہا تھا کہ اس کا جواب نہیں ہے۔ اب برا ہو اس شخص کا جس نے علاج کے لیے پیسے نہ ہونے پر اپنی 15 روز کی بچی زندہ درگور کر دی۔ اس نے بتایا ہے کہ اس کی بچی کو خون کی کمی تھی ڈاکٹروں نے اسے حیدر آباد کے کسی بڑے ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا تھا۔ میرے پاس اتنی رقم کہاں سے آتی کہ اسے علاج کے لیے حیدر آباد لے جاتا۔ شاید اس لیے اس نے بچی کو دھرتی ماں کی گود میں ڈال دیا کہ اب اسے کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ 15 سو سال قبل عرب کے بدو چند قبائل میں لڑکی کو ناموس اور غیرت کے نام پر پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیا جاتا تھا وہ دور جاہلیت تھا۔ تب غیرت کے نام پر یہ ہوتا تھا۔ اب تو جدید دور ہے ہم سب مسلمان ہیں اب یہ کام غربت کی وجہ سے علاج کے لیے پیسے نہ ہونے کے باعث ہو رہا ہے تو حکمران کہاں ہیں ان کو اس سوال کا جواب دینا یاد نہیں کہ جب یہ بے گناہ معصوم بچی سوال کرے گی کہ ”مجھے کیوں قتل کیا گیا، کیا جواب دیں گے سندھ کے اور پاکستان کے حکمران اور اشرافیہ۔ یہ تو کوئی اس باپ سے پوچھے جس نے دل پر پتھر رکھ کر شاید اپنی بچی کو تکلیف سے بچانے کے لیے یہ ہولناک قدم اٹھایا کیونکہ کوئی بھی اپنے بچوں کو پل پل مرتا، تڑپتا اور روتا نہیں دیکھ سکتا یہ بات سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے لاڈلے کیا جائیں۔ 
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں بڑھ گئی چند روز میں 2 نوجوان قتل۔
یہ بات تو طے ہے کہ مودی کے پالے ہوئے زہریلے مسلم دشمنی کے ناگ کو جب بھی جہاں بھی موقع ملتا ہے وہ بے گناہ مسلمانوں کو ڈسنے سے باز نہیں آتا....چند روز میں جس طرح غنڈوں نے بے دردی سے الگ الگ شہروں میں دو مسلمانوں کو قتل کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب الیکشن میں مسلم ووٹوں کی وجہ سے مودی کا دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کا خواب چکنا چور ہوا ہے تو اب وہ اس کا بدلہ کسی نہ کسی صورت مسلمانوں کو زک پہنچا کر لے گا۔ طاقت کے نشے میں راون بن جانے والا اپنی یہ ہزیمت شاید ہی بھول پائے گا، اب شروعات کے لیے اسے کوئی بہانہ درکار ہے۔ دوسری طرف خالصتانی سکھوں کے خلاف بڑی بڑی باتیں اور تقریریں کرنے والے بی جے پی کے رہنما کو بھارتی پنجاب میں تلواروں سے لیس سکھوں نے سرعام روک کر سینکڑوں افراد کے سامنے مار مار کر زخمی کر دیا جو ہاتھ جوڑ کر ان سے معافی مانگتا کہ میرے باپ کی توبہ جو آج کے بعد کوئی ایسا واہیات بیان دوں۔ اس کامیاب کارروائی کے بعد وہ سکھ آرام سے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چلے گئے۔ کسی نے ان کو روکنے کی کوشش تک نہیں کی۔ بعد میں پولیس نے آ کر زخمی کو ہسپتال پہنچایا، جہاں زخموں پر بندھی پٹیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں خالصوں کے خلاف بولنے پر اچھا خاصہ سبق سکھایا گیا ہے۔ اب اگر یہی حرکت کسی مسلم علاقہ میں کسی مسلمان نے کی ہوتی تو پوراسنگھ پریوار اور مہاسبھائی ہی نہیں شیو سینا کے غنڈے بھی بی جے پی والوں کے ساتھ مل کر پولیس کی مدد سے۔علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے۔ مگر کب تک .اب تو گواکے عیسائی اکثریی علاقوں میں دیکھ لیں وہاں بھی انہوں نے ہندوتوا کے بھوت کو مار مار کر ہلکان کر رکھا ہے اور وہاں فوج اسے بچانے کیلئے کوشاں ہے۔ 
بیرون ملک بھیک مانگنے والوں کے ہزاروں پاسپورٹ بلاک۔
 یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ بیرون ملک خاص طور پر عرب ممالک میں یہ بے شرم ہٹے کٹے مصنوعی طور پر معذور بنے بھکاری پاکستان کا نام بدنام کر رہے ہیں۔ مردوں کے علاوہ عورتوں کی بڑی تعداد جن میں معمر خواتین اور بچیاں بھی شامل ہیں وہ بھی تقریباً ہر مسجد اور تجارتی مراکز کے باہر بھیک مانگتی ہیں۔ اگر یہ واقعی محتاج ہیں تو لاکھوں روپے کے ٹکٹ اور ویزے لے کر کس طرح یہاں آتے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے یہ معاملہ کچھ اور ہے۔ گداگر مافیا یہ سب کروا رہا ہے۔ اب تو یہ کاروبار ایران، عراق اور شام تک پھیل گیا ہے جہاں زیارتوں کے باہر پاکستان کے بھکاری بھی دوسرے بھکاریوں کے ساتھ مل کر ملک کا نام روشن کر رہے ہوتے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات و دیگر عرب شہروں میں یہ تجارتی مراکز کے گرد ڈیرے جمائے نظر آتے ہیں اور اپنی منحوس شکل پر مزید ذلت طاری کرتے ہوئے بھیک مانگتے ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں لوگ پاکستانیوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ ایک وقت تھاکہ ان علاقوں میں پاکستانی محنت کشوں اور ہنر مندوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اب تو سعودی عرب میں حج کے علاوہ عمرہ سیزن میں بھکاریوں کی بڑی تعداد اپنے کاروبار میں مصروف نظر آتی ہے۔ اب اگر حکومت واقعی ان لوگوں کے پاسپورٹ بلاک کرے تو یہ بڑی نیکی ہو گی اور ملک کا نام مزید بدنامی سے بچ جائے گا۔ اس کے علاوہ حکومت ان ممالک پر بھی زور ڈالے کہ وہ ان بھکاریوں کو پکڑ کر سخت سزا دیں تاکہ وہ دوبارہ اس طرف کا رخ نہ کریں۔ 

ای پیپر دی نیشن