’’ پارلیمان ‘‘ کے دونوں ایوانوں کے اجلاسوں کے دوران پارلیمنٹ کی غلام گردشوں میں’’ حکومت کا مستقبل‘‘ موضوع گفتگو بنا ہوا ہے ہر کوئی یہی سوال کرتا ہے کہ یہ حکومت کتنے دن چلے گی ؟ بہر حال ’’ پارلیمنٹ ہائوس‘‘ میں جہاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیب قانون میں ترامیم پر مذاکرات ہو رہے ہیں وہاں حکومتی کمیٹیاں’’ ناراض‘‘ اتحادیوں کو منانے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی ہیں اتحادیوں کے بدلے بدلے ’’ تیور ‘‘اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ’’ سب اچھا نہیں‘‘ ۔ حکومتی کمیٹیوں کو بھی کچھ سجھائی نہیں دے رہا کیونکہ تمام اتحادی جماعتوں نے اپنے اپنے مقام پرپوزیشن لے لی ہے اور تسلیم شدہ مطالبات پر عمل درآمد کا تقاضا کر رہے ہیں حکمران جماعت اور اتحادی جماعتوں میں ’’سرد جنگ‘‘ نے شدت اختیار کر لی ہے بظاہر ’’سب اچھا‘‘ کے گیت گائے جا رہے ہیں لیکن’’ سرد جنگ ‘‘ میں اسلام آباد ،لاہور ، کراچی اور کوئٹہ سے اٹھنے والے ’’ دھویں ‘‘ سے پورا سیاسی ماحول دھندلا گیا ہے کوئی سیاسی نجومی آنے والے دنوں کے سیاسی منظر کے بارے میں پیشگوئی نہیں کر سکتا تاہم سیاسی شعور رکھنے والا ہر شخص یہ بات برملا کہہ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ’’کچھ ‘‘ہونے والا ہے
مسلم لیگ (ق) اور حکومت کے درمیان ’’برف‘‘ پگھل نہیں سکی دو روز قبل ا تحادیوں سے مذاکرات کے لئے قائم کردہ کمیٹیوں کا اہم اجلاس وزیر دفاع پرویز خٹک کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہا ئوس میں ہوا۔اجلاس میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار، گورنر پنجاب چوہدری سرور، گورنر سندھ عمران اسماعیل ،ڈپٹی سپیکر قاسم سوری، شفقت محمود، اسد عمر نے شرکت کی جس میں اتحادیوں طے شدہ امور پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا گیا حکومتی کمیٹیوں کے اجلاس میں پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الہی کی ’’ہارڈ لائن‘‘ موضوع گفتگو رہی کمیٹیوں کے ارکان نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنمائوں چوہدری شجاعت حسین ، چوہدری پرویز الہی ، طارق بشیر چیمہ ، کامل علی آغا اور مونس الہی کے ’’تیکھے ‘‘ بیانات کا بھی جائزہ لیا گیا اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے’’ غیر لچک د ار‘‘ رویہ سے پیدا ہونے والی صورت حال پر بھی غور کیا گیا وفاقی وزیر شفقت محمود نے مسلم لیگ (ق) کے تحفظات سے اجلاس کے شرکا کو آگاہ کیا اور اور کہا کہ چوہدری برادران کو حکومتی طرز عمل بارے میں شکایات ہیں سر دست اجلاس میں چوہدری برادران کے تحفظات کو دور کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے چوہدری شجاعت حسین عمرہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب چلے گئے ہیں اس دوران انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ اتحاد صرف ملکی مفاد میں کیا ہے کوئی ذاتی لالچ نہیں ہے۔ وزیر اعظم اتحادیوں پر اعتماد کریں ،’’فسادیوں‘‘ کی باتوں پر کان نہ دھریں کیونکہ فسادیوں نے ہمیشہ نفرت اور انتشار کی سیاست کی ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے ’’ہارڈ لائنر‘‘ چوہدری پرویز الہی اسلام آباد آنے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی نئی حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں حکومتی کمیٹیوں نے اتحادیوں سے باضابطہ رابطہ شروع کر دئیے ہیں اور ان کو پہلے طے شدہ معاملات پر ایک بار پھر عملدرآمد کی یقین دہانیاں کرانا شروع کر دی ہیں کمیٹیوں کے اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ’’ اتحادی بھی ساتھ رہیں گے اور اتحاد بھی برقرار رہے گا۔ آس لگانے والے پہلے بھی ناکام ہوئے ہیں ، انھیں اب بھی مایوسی ہوگی۔ تمام معاملات بھی افہام وتفیم سے حل کر لیے جائیں گے‘‘۔ گورنر پنجاب چودھری سرور بھی پر امید دکھائی دیتے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ اتحادیوں سے تمام معاملات خوش اسلوبی طے کر لئے جائیں گے وفاقی وزیرتعلیم و تربیت شفقت محمود نے بتایا کہ اگلے ہفتے اپنے اتحادیوں سے رابطہ کرکے ملاقات کریں گے۔ تمام کمیٹیاں اپنے اپنے ٹاسک کے مطابق اتحادیوں سے ملیں گی۔ پہلے سے طے شدہ معاملات پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ آئندہ ہفتے اتحادیوں سے مذاکرات شروع ہوجائیں گے، اتحادیوں سے مذاکرات کے پہلے سے طے شدہ طریقہ کار پر بات ہوگی۔ذرائع کے مطابق ملاقات میں اتحادیوں کے مطالبات، عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے گا، پرویز خٹک نے اس بات کی نوید سنائی ہے کہ اتحادیوں سے معاملات ہفتہ عشرہ میں طے ہوجائیں گے یہ بات قابل ذکر ہے کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس کے بعد صحافیوں نے دریافت کیا کہ کیاجہانگیر ترین کو دوبارہ کمیٹیوں میں شامل کیا جائیگا؟ جس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔
تھا پرویز خٹک نے کہا کہ’’ اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار وزیراعظم عمران خان کے پاس ہے‘‘۔ پاکستان تحریک انصاف اور ن مسلم لیگ (ق) کے درمیان تیزی سے ’’فاصلے ‘‘ بڑھ رہے ہیں مسلم لیگ (ق) کی قیادت اس کا ذمہ دار ان لوگوں کو قرار دے رہی ہے جو پاکستان مسلم لیگ(ق) چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الہی لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے والے لیڈر ہیں وہ کھل کر اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہیں چوہدری برادران کا موقف ہے کہ دھرنا ختم کرانے میں ان کی مخلصانہ کوششوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اس پر طرفہ تماشا یہ کہ وزیر اعظم نے’’ اشاروں کنایوں ‘ میں سازش‘‘ کا ذکر کر کے چوہدری برادران ناراض کر دیا ہے چوہدری برادران بار بار وزیر اعظم کو سوچ سمجھ کر کوئی بات کرنے اور پھر اس پر قائم رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔البتہ مونس الہی نے کہا ہے کہ ’’ ایک کمیٹی کے ہوتے ہوئے دوسری کمیٹی کا قیام بلا جواز تھا۔ اسمبلی میں کئی لوگ ہماری سوچ کے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ چودھری پرویز الہی وزیراعلیٰ کے امیدوار نہیں۔اب دیکھنا ہے کہ مسلم لیگ( ق) کی اعلیٰ قیادت اپنے رویہ میں لچک پیدا کرتی ہے یا تحریک انصاف اپنا اقتدار بچانے کے لئے اتحادیوں کے سامنے ’’ڈھیر ‘‘ ہو جاتی ہے اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ہی مل پائے گا سر دست چوہدری پرویز الہی نے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے سے انکار کر دیا ہے وفاقی وزیر ہائوسنگ و ورکس طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے کہ’’ پاکستان تحریک انصاف بڑی جماعت ہے اس کے سوچنے کا انداز الگ ہے،وہ اپنے غلط فیصلوں کی سزاپائے ہم کیوں ان کے غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھیں۔ ڈیڑھ سال انتظار کیا کہ معاملات بہتر ہوں لیکن نہیں ہوئے یہی جرم سرزد ہوا کہ اتحادی ہونے کے ناطے عوام کے حقوق کی بات کی ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اور کشتی ڈوبی تو ان کی وجہ سے ہی ڈوبے گی، کنارے لگی تو دونوں کی کشتی پار لگے گی۔ مسلم لیگ (ق )لیگ پنجاب کے جنرل سیکرٹری سینیٹر کامل علی آغا نے اعتراف کیا ہے کہ ابھی تک حکومت کے ساتھ ڈیڈ لاک برقرار ہے،جہانگیر ترین کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد کے بغیر ہم ایک قدم آگے نہیں چلیں گے۔
حکومتی کمیٹی سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے وفد کی ملاقات ہوئی ہے تاحال حکومتی کمیٹی ایم کیو ایم کو وزارت کا استعفیٰ واپس لینے پر آمادہ نہ کر سکی ایم کیو ایم کراچی پیکج پر عمل درآمد پر اڑی ہوئی ہے ۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، گورنر سندھ عمران اسمٰعیل، وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر اور ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی اور فیصل سبزواری کیٍ درمیان ہونے والی ملاقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اسد عمر نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم سے بات چیت جا رہی ہے ایم کیو ایم نے کبھی وزارت کی بات کی اور نہ ہی ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان کوئی کشمکش ہے۔خالد مقبول صدیقی نے معنی خیز بات کہی ہے کہ’’ ملاقات کے لئے آئے تھے مذاکرات کے لئے نہیں جبکہ ہمارے جو سوالات تھے ان کے جوابات مانگے ہیں‘‘۔وزیر اعظم نے کمیٹیوں کو اتحادیوں کو راضی کرنے کا ٹاسک دے رکھا ہے جب تک کمیٹی سے جہانگیر کو ڈراپ کئے جانے سے پیدا ہونے والی کشیدگی ختم نہیںہوتی اس وقت تک تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ق) کے درمیان ’’فاصلے‘‘ کم ہونے کا امکان نہیں جہانگیر ترین کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد تاحال وزیر اعظم ہائوس سے کوئی ’’چونکا ‘‘ دینے والی خبر نہیں آئی ۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024