نواز شریف ہر دور میں نوازے گئے۔ کس کے خواب و خیال میں تھا کہ بغاوت کے جرم میں سزا یافتہ جیل سے محل منتقل ہو گا اور واپس آنے پر وزیر اعظم ہائوس پھر ان کی قیام گاہ ہو گا۔ اس کے بعد جیل سے بذریعہ ہسپتال لندن روانگی بھی کیا کسی کے وہم و گمان میں تھی۔ ہسپتال میں ایک قیدی مریض کیلئے 21 ڈاکٹرز کی ڈیوٹی پر آٹھ آٹھ گھنٹے سات، سات ڈاکٹر دیکھ بھال پر مامور رہیں، اس سلوک کا تصور کس نے کیا ہو گا، ہفتے کے روز، چھٹی کے دن عدالت عالیہ کا اپنی مرضی سے علاج کی سہولت حاصل کرنے کی استدعا کی سماعت اور پھر درخواست منظور کر لینا بیرون ملک علاج کرانے میں 7ارب روپے کی حکومتی مانگ یا ضمانت کی رکاوٹ دور کرنے کی درخواست کی ۔ ہفتے ہی کے دن، یوم تعطیل پر عدالت عالیہ کی پھر سماعت اور معاملے کو قبولِ صورت بنا دینے کا فیصلہ،اس سب میں کچھ بھی ماورائے قانون نہیں ہے۔
نوازشات کی موسلادھار بارش کیا کم ہوئی کہ اپنے بیگانے سب حکومت کو لعنت ملامت کرنے لگے کہ مریض کی نازک حالت کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی جب کہ قطری ائر ایمبولینس بے نیل و مرام ایک بار واپس گئی ہے۔ نواز شات کی یہ کیفیت بھی دیکھنے میں آئی کہ وفاقی کابینہ کو بھی مریض کی نازک حالت یا حالات کی سنگینی کا احساس ہوا جس کے نتیجے میں ایک سزا یافتہ مجرم اور حوالاتی ضمانت پر، جو آرڈر سے چار ہفتے رہ گئی تھی، ضمانت ہی پر رہا ہونے والے اپنے بھائی، ذاتی معالج اور دو ملازموں سمیت ائر ایمبولینس پر براجمان ہوئے۔ گھر سے روانگی کے بعد ائرایمبولینس میں، جو بعد میں شاہی قطری طیارہ ثابت ہوا، سوار ہونے تک نازک حالت کہیں نظر نہیں آئی۔ دکھائی دیتی بھی کیسے، بیٹوں سے ملنے کی خوشی میں چند روز پہلے چلنے کی مشق کرنے والے قدم کچھ زیادہ ہی تیز اٹھ گئے۔ یہ کیفیت دیکھ کر بیرونِ ملک جانے کی اجازت دینے والے سٹپٹا کر رہ گئے اور لندن پہنچنے پر اوور کوٹ بازو پر سجائے اپنے سب مزدوروں سے گلے ملتے دیکھ کر سٹپٹانے والے تو ایسے تڑپے کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ سامنے رکھ کر بلبلا رہے ہیں۔
پاکستانی میڈیکل بورڈ بیماری کی تشخیص نہیں کر سکا اسی حوالے سے بیرون ملک علاج کی سہولت بھی مل گئی۔ اب بیرون ملک علاج کی کیفیت خفیہ رکھنے کی کوشش مریض کے لواحقین کر رہے ہیں کہ Platelets کی الٹ پلٹ کے کرشمے، شعبدے ثابت نہ ہو جائیں۔ اس صورتحال میں بیماری کی تشخیص ہو تو کیسے؟ لیکن اس رائے سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ بیماری بس، قید ہے، انوکھا قیدی کئی بار کہہ چکا ہے کہ قید اور جیل کی برداشت، اسکے بس کی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قید کے دوران بیمار ہونیوالا جب بھی کسی بھی حوالے سے رہا ہوا، وہ بیمار نہیں ہوا۔ عدالتِ عظمیٰ کی علاج کیلئے دی گئی چھ ہفتے کی مہلت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت اسلئے محسوس نہیں کی گئی اور عدالت عالیہ کی علاج کے سلسلے میں فراہم کردہ آدھی مدت آزادی کی فضا کی نذر ہو گئی۔ اب بیٹوں سے ملنے کی خوشی سے رہی سہی بیماریاں بھی ختم ہونے کی توقع ہے۔ علاج کیلئے قید سے رہائی کی درخواست کے ضمن میں قیدی کے وکیل نے یہ دلیل بھی عدالت عظمیٰ میں دی تھی کہ قید کی ٹینشن کی وجہ سے بھی علاج کامیاب نہیں ہو رہا۔ جب‘ جب ٹینشن ختم ہوئی‘ علاج کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
نوازشریف کی نوازشات کا مختلف ذکر بھی ضروری ہے۔ اس ضمن میں اختصار اس لئے کہ جو کچھ انہوں نے کیا اورجو کچھ ان سے ہوا وہ داستان ہی نہیں‘ سبق آموز بھی ہے۔ تحریک استقلال میں پولنگ ایجنٹ کی حیثیت رکھنے والے ڈائریکٹ صوبائی وزیر خزانہ بنے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کی برطرفی کا فرمان جاری کرنے والے انکے وزیراعلیٰ کا ’’کلہ‘‘ مضبوط ہونے کی خوشخبری سنا رہے تھے۔ وزارت عظمیٰ کی پہلی معزولی پر صدر اور آرمی چیف کو بھی اپنے منصب سے الگ ہونا پڑا۔ دوسری بار وزیراعظم ہائوس سے وقت سے پہلے رخصت ہوئے تو سعودی عرب میں سرور پیلس کے مکین بن گئے۔ تیسری بار معزولی کا حکم ملا تو نااہلی کے فیصلے پر تنقید کی جا سکتی ہے‘ کا حق یاد دلا دیا۔ اس سے پہلے کے اپنے حقوق کا احساس تھا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا ورد اس سے پہلے کون کر سکا۔ نکالنے کا فیصلہ کرنے والوں کے خلاف شعلہ فشانی کی جس کے شعلے سرکاری ٹی وی کی سکرین سے بار بار نکلتے رہے۔ پارٹی کی سربراہی سے الگ کئے گئے تو قائد ملت بنے۔ تاحیات نااہل ٹھہرے تو تاحیات قائد ملت بن گئے۔ نااہلی کے فیصلوں کے نتیجے میں خود کو ایسا ثابت کر دکھایا کہ اپوزیشن کی سیاست کا ہر فیصلہ ’’نااہل‘‘ کے مشورے سے ہوا اور اپوزیشن کے ہر چھوٹے بڑے لیڈر کا بیان اسے نااہل و نالائق کہے بغیر مکمل نہیں ہوتا جسے عدالت عظمیٰ نے اہل اور صادق و امین قرار دیا تھا۔
نوازشات یہ بھی ہیں کہ جیل گئے تو قیدیوں کو درپیش مسائل و مصائب حل کرنے کی توجہ محسوس کی گئی۔ ہسپتال پہنچے تو معلوم ہوا کہ پاکستان کے کسی ہسپتال میں بھی علاج کی تمام سہولتیں کیا کئی امراض کی تشخیص تک نہیں کی جا سکتی۔ 30 سال تک حکمران رہنے والے نواز شریف ان ملکی مصائب سے کب آگاہ تھے، واقف ہوتے تو ان مشکلات کو دور نہ کرتے جو تین بار وزیر اعظم رہنے والے کو پیش آ سکتی ہیں تو عام آدمی ان تکالیف کا کیسے سامنا کر سکتا ہے، جو کسی کی نوازش یا کسی کے کرم اور کسی سے مہربانی کی توقع بھی نہیں کر سکتا۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ نئے حکمران کو ڈاکٹروں، چوروں اور لٹیروں کو این آر او نہ دینے کے دعوے کرنے اور نعرے لگانے ہی سے فرصت نہیں کہ عام آدمی کے مسائل حل ہوں، مصائب کم ہوں چہ جائے کہ ختم ہوں!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024