وزیر خزانہ اعلان کر چکے ہیں کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو الوداع کہہ دیا ہے۔ بیل آؤٹ پیکج کی تجدید نہیں کرائیں گے تاہم آئی ایم ایف نے اسحاق ڈار کوجو سبق پڑھا دیئے ہیں وہ انہیں ازبر یاد ہو گئے ہیں۔ سرکاری اداروں کو کیسے دوستوں کی جھولی میں ڈالنا اور ٹیکس پر ٹیکس لگاتے چلے جانا ہے۔ یہ تو اسحاق ڈار نے الوداع کہا ہے۔ آئی ایم ایف نے تو الوداع کہنے کا اعلان نہیں کیا۔ کون سا دکاندار ایسا ہے تو اپنے پکے گاہک کو الوداع کہہ دے۔ پاکستان کا بجٹ خسارہ 5 فیصد سے نیچے لایا گیا ہے۔ یہ بھی ترقیاتی بجٹ کا گلا کاٹ کر اور آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج کا سلائس کھا کر۔ مالی سال 2015-16ء میں ایف بی آر نے پچھلے سال سے 20 فیصد آمدنی 3115 ارب روپے بڑھا کر اسحاق ڈار کا دل باغ باغ کر دیا ہے۔ حکومتی آمدنی کا زیادہ انحصار بدستور بالواسطہ اور ود ہولڈنگ ٹیکسوں پر ہے۔ 2013ء میں شریف حکومت کے پاس اسکے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ بیل آؤٹ پیکج حاصل کرے۔ 1958ء سے اب تک پاکستان ایسے 16 پیکج حاصل کر چکا ہے۔ کچھ پیکج تو ادائیگیوں کے عدم توازن اور مطلوبہ شرائط پوری نہ ہونے کے سبب راستے سے ہی واپس واشنگٹن چلے گئے۔ ادھار کھانا آسان ہے ادھار چکانا مشکل ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کے باوجود قرضوں کا پہاڑ اپنی جگہ سے نہیں سرکا۔ شریف حکومت کو اپنے الوداعی بیل آؤٹ پیکیج کو سود کا ہار پہنا کر واپس بھی تو لوٹانا ہے۔ آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کیلئے اکنامک گروتھ اور ٹیکس ریفارمز کی ضرورت ہے۔ فائلرز اور نان فائلرز کا شور مچانے سے آئی ایم ایف کا عفریت جان نہیں چھوڑے گا۔ اکنامک گروتھ 5 فیصد سے آگے نہیں جائیگا۔ آئی ایم ایف کو بائی بائی کہنے سے پہلے ورلڈ بنک سے ایک ارب ڈالر قرض کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں۔ قرض تو آئی ایم ایف سے نہیں تو دوسری اور دکانوں سے مل جائیگا۔ بات بھی بن جائیگی کہ آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائیگی۔ ایسی الوداعی تقریبات پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔
ملک تو قرضوں میں جکڑا ہوا ہے لیکن پاور سیکٹر کا بھی کمال نہیں، حکومت وقت کے بعد کمرشل بنکوں کے پاس کیش کو پاور سیکٹر نگلتا جا رہا ہے۔ اس کا نام نہاد گردشی قرضہ ڈیفنس بجٹ کے مساوی ہو گیا تھا۔ چند سال قبل شریف برادران کے کہنے پر چینی سرمایہ کاروں نے پاکستان کے پاور سیکٹر کو بغور دیکھنا شروع کیا۔ اس سیکٹر کے گاہکوں یعنی بجلی کے صارفین کی تعداد 20 کروڑ سے کم نہیں۔ اگر ہر گاہک سے فقط ایک سو منافع بھی مل جائے تو ماہانہ منافع 20 ارب روپے بنتا ہے۔ سالانہ منافع 240 ارب روپے، گویا نفع ہی نفع ہے تاہم چینی سرمایہ کار ایک لمحے کیلئے رکے تو اس بات پر کہ پاور سیکٹر کے ذمے اربوں کا گردشی قرضہ بھی تو ہے۔ آئی پی پیز والے کم ہوشیار نہیں۔ سرکار سے وصولی کو خود مؤخر رکھتے ہیں تاکہ سود پر سود چڑھتا جائے اور پلانٹ بند رکھنے کا بہانہ ہاتھ آ جائے لیکن شیئر ہولڈرز اور بنک زیادہ دیر انتظار نہیں کرتے۔ وہ کوئی بہانہ نہیں مانتے نہ ہی عذر قبول کرتے ہیں۔
2013ء میں آئی پی پیز کو واجب الادا رقم 500 ارب روپے تھی۔ فرنس آئل کی قیمتیں بھی گرتی چلی گئیں۔ رقم ادا ہو گئی لیکن ستمبر 2014ء حکومت اور آئی پی پیز کو ادائیگیوں کا تنازع نمٹانے لندن جانا پڑا۔ چینی سرمایہ سود در سود کے جنجال سے پاک کلین پراجیکٹ کو ٹیک اوور کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آج آئی پی پیز کو باقاعدگی سے پے منٹس مل رہی ہیں۔ بیرونی سرمایہ مقدمے بازی اور وعدہ کیخلاف ادائیگی سے دور بھاگتے ہیں۔ وہ پاکستان کے ادائیگیوں کے آج کل کے کلچر کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
کے الیکٹرک چینیوں کی گود میں ڈال دی گئی ہے لیکن چینیوں نے کے الیکٹرک کے منہ سے اپنا فیڈر نہیں لگایا۔ چینی کمپنی پہلے 10 سال کا حساب کتاب لگا رہی ہے کہ کراچی میں عادی بجلی چوروں کے خلاف خود نمٹے گی یا رینجرز کو مدد کیلئے پکارے گی۔ جب حکومتی ادارے ڈیفالٹ کر یں گے تو ان کا بل بھی عام صارفین کے سر چڑھا دیا جائیگا۔ صارفین کو اتنی فرصت اور اتنی سمجھ کہاں کہ بجلی کے بل کے اندرونی رموز کو جان سکیں۔ بجلی کی قیمت سے پانچ گنا تو ٹیکس ہوتے ہیں جیسے موبائل کے ایزی لوڈ میں پانچ سو روپے کے بدلے ساڑھے تین سو روپے کا لوڈ ملتا ہے۔ قصائی اور دودھ بیچنے والے کیا کھال اتاریں گے جو حکومت اپنے اہل وطن کی اتار رہی ہے۔
تازہ بلکہ نیا وعدہ یہ ہے کہ 2018ء تک لوڈشیڈنگ دفع ہو جائیگی۔ وعدہ کرنے کیلئے ہاتھ سے کچھ دینا نہیں پڑتا بلکہ زبان کو دراز کرنا یا ہلانا ہوتا ہے جیسے لیڈر کہتے آئے ہیں کشمیر کو آزاد کرا کے دم لیں گے۔ ڈینگی کو ختم کر کے دم لیں گے۔ ناانصافی کو ختم کر کے دم لیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سچ ہو گا کہ بجلی کے پیداواری یونٹ نصب کئے جا رہے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ پورا پاور سسٹم ہی ازکار رفتہ ہو چکا ہے جیسے اندرون شہر کی خستہ حال عمارتیں‘ مکین جانتے ہیں کہ وہ بوسیدہ چھتوں تلے ہیں لیکن پھر بھی رہ رہے ہیں۔ پاور سیکٹر میں گڈ گورننس اور ریفارمز کون لائے گا۔ خواجہ آصف اور عابد شیر علی میں ان باتوں کیلئے دم خم نہیں رہا۔
ایل این جی‘ کوئلہ اور فرنس آئل سے زیادہ ضروری بات بجلی کی قیمت اور اس کی 24 گھنٹے بلا رکاوٹ فراہمی ہے۔ ہم بھاگ بھاگ کر چین جاتے ہیں۔ چین کے بجلی کے نظام میں کوئی صارف ایک یونٹ بجلی چوری نہیں کر سکتا۔ بجلی کی قیمت پورے چین میں ایک جیسی ہے۔ ایک منٹ کیلئے بجلی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتی۔ جس طرح تھانہ کلچر نہیں بدلا‘ اسی طرح بجلی چوری کلچر نہیں بدلا۔ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے ساتھ اور بہت ساری قباحتوں کو بھی ختم کرنا پڑے گا۔ 38 ماہ کی حکمرانی میں بجلی کی طلب میں اضافے کی وجہ سے شارٹ فال مزید بڑھ گیا ہے اور اب بھی دن میں کئی کئی گھنٹے بجلی بند رکھی جاتی ہے۔ 22 ماہ میں وزیراعظم لوڈشیڈنگ ختم کرائیں گے‘ لیسکو میں بار بار چیف ایگزیکٹو بدلنے سے صارفین کو کیا فائدہ پہنچا تھا۔ تھانیدار کو بدل دینے سے پولیس کا نظام تو وہیں رہتا ہے۔ حرکتیں اور سوچ تو نہیں بدلتی۔ کیا کسی نئے تھانیدار کے آنے سے کوئی علاقہ جوأ‘ سٹے بازی‘ عصمت فروشی‘ سٹریٹ کرائم‘ منشیات فروشی‘ آوارہ گردی‘ بدمعاشی سے پاک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کسی ایس ڈی او کو ادھر سے ادھر کر دینے سے بجلی چوری ختم ہو جاتی ہے؟۔ اووربلنگ کا خاتمہ ہو جاتا ہے یا فیڈر ٹرپ کرنے بند ہو جاتے ہیں؟ بجلی کی ترسیلی لائنوں کی اوورہالنگ یہ خود کرینگے یا چینیوں کو بلائیں گے۔ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے ذمہ داروں میں پائی جانے والی بدعنوانیوں کا علاج ہم کریں گے یا چینیوں سے کرائیں گے۔ نجکاری کا نام لیں تو دھرنے دیئے جاتے ہیں تاکہ حکومت دبائو میں آجائے۔
22 ماہ میں حکومت کون کون سے چیلنج کا مقابلہ کرے گی۔ کون کون سا انتخابی وعدہ پورا کرے گی۔ حکومت کی ترجیحات تو وہ خود جانتی ہے کہ کیا ہیں۔ کہنے کو صارفین کو بجلی مناسب قیمت پر فراہم کرنا بھی اس کی ترجیح ہے۔ احسن اقبال وژن 2050ء کا سہاناسپنا دکھا چکے ہیں۔ جب بجلی کی پیداوار 42 ہزار میگاواٹ ہوگی احسن اقبال کی نسلیں اس خواب کی تعبیر دیکھیں گی۔ بجلی کیلئے ایٹمی ری ایکٹروں پر کام ہو رہا ہے۔ تیل اور گیس کے حصول کے ’’تاپی‘‘ سمیت کئی معاہدے ہو چکے ہیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو لگی امریکی نظر ابھی نہیں اتری۔ سورج کی توانائی‘ ہوائی قوت اور سمندری لہروں سے بجلی پیدا کرنے کی خبریں دل کو بہلا رہی ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری سے برقی پیداوار اور ترسیل کا نظام بھی بہتر ہوگا۔ کالاباغ ڈیم بنا نہ بھاشا ڈیم‘ چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی نہ بن سکے۔ ہم اپنی قسمت کو روئیں یا پھر گندی سیاست کو۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024