پیر‘ یکم محرم الحرام 1446ھ ‘ 8 جولائی 2024ء

بانی کیخلاف گواہی دی تو اچھا نہ ہو گا۔ گنڈا پور کی پرویز خٹک کو دھمکی 
یہ بڑی عجیب بات ہے ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ ہو کر علی امین گنڈا پور کو ایسی زبان زیب نہیں دیتی۔ پرویز خٹک کو پی ٹی آئی میں بانی کا نفس ناطق کہا جاتا تھا۔ وہ دونوں ایک جسم اور دو جان تھے۔ اسے ہم ایک اور ایک گیارہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ پرویز خٹک نے خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کو ناصرف زندہ رکھا بلکہ اسے وہاں کی سب سے توانا اور مضبوط جماعت بنا دیا۔ وہ بانی کے اور جماعت کے بہت سے اندرونی اور بیرونی رازوں کے امین بھی ہیں جبکہ گنڈا پور کے صرف نام میں امین آتا ہے۔ اب کوئی ان کو لاعلم کہے اور ان کی باتوں سے اختلاف کرے یہ اس کا حق ہے۔ حقیقت تو سب جانتے ہیں کہ پرویز خٹک بہت کچھ جانتے ہیں۔ یہ تو ان کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے ابھی تک منہ نہیں کھولا۔ اب شاید خطرہ ہے کیونکہ انہیں کسی کیس میں عدالت نے طلب کیا اور گواہی کیلئے بلانا ہے۔ 
اب اس وجہ سے بہت سے لوگوں کو پریشانی ہو رہی ہے کہ کہیں پرویز خٹک عدالت میں کچھ بول نہ دیں۔ اسی خوف کا اظہار علی امین گنڈا پور کے بیان سے ہو رہا ہے کہ وہ بھی سہمے ہوئے ہیں اس لیے کہہ رہے ہیں اگر پرویز خٹک نے بانی کے خلاف جھوٹی گواہی دی یعنی کچھ ایسا ویسا کہا تو پھر ان کی خیر نہیں۔ وہ خیبر پی کے میں یوں آزادانہ گھومتے پھرتے‘ پراٹھے کھاتے چائے پیتے اور سگریٹ پھونکتے نظر نہیں آئیں گے۔اب اگر یہ کھلی دھمکی نہیں تو اسے اور کیا کہا جائے گا۔ اسے اب کھلی بدمعاشی کہا جائے تو اس پر پی ٹی آئی والے ناراض ہو جائیں گے۔ اب یہ بات ان کے رہنمائوں کو کون سمجھائے کہ یہ زبان و بیان کسی بھی صورت شریفوں والا نہیں ہوتا۔ اب کہیں غصے میں آ کر پرویز خٹک واقعی عدالت میں کچھ نہ کہہ دیں۔ 
٭٭٭٭٭
مسلم لیگ نون کے ناراض ارکان نے پاکستان عوام پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنا لی
 شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور انہی جیسے دیگر مسلم لیگ سے علیحدہ ہونے والے رہنمائوں نے گرچہ اپنی جماعت بنا لی ہے مگر سوچنے کی بات ہے کہ اس سے کیا فرق پڑا سوائے اس کے کہ درجنوں جماعتوں میں ایک اور جماعت کا اضافہ ہو گیا۔ کیا ان مخلص لوگوں کو پاکستان کی موجودہ سیاسی جماعتوں میں سے کوئی جماعت ایسی نہیں نظر آئی جس پر ان کو اعتماد ہوتا اور وہ اس میں شامل ہوتے۔ اس طرح کم از کم انہیں کام کرنے والے ساتھی بھی مل جاتے اور یوں ان کو کم مشقت کرنا پڑتی اور ان کے خوابوں کو تعبیر مل سکتی تھی۔ اب انہیں ملک بھر میں اپنے ہم خیال ساتھی تلاش کرنے ہوں گے اور اس کی کیا گارنٹی ہے کہ چاروں صوبوں میں انہیں ہم خیال ساتھی میسر آجائیں گے۔ اگر مل بھی جاتے ہیں تو اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ وہ بھی ان کی طرح مخلص ہیں اور ملک و قوم کے حالات بدلنا چاہتے ہیں ورنہ ہماری سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے ہاں بڑی بڑی سیاسی جماعتوں سے جو بھی دھڑا علیحدہ ہوا ‘اس کی حالت تین میں ہوتی ہے نہ میں۔ وہ نہ اِدھر کے رہتے ہیں نہ اْدھر کے اور بالآخر آہستہ آہستہ وہ یا تو تاریخ کی دھول بن جاتے ہیں یا پھر ان کی حیثیت صرف پریشر گروپ کی سی رہ جاتی ہے۔ جسے ہر جماعت اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اب خدا کرے کہ ہمارے ان سیاسی رہنمائوں کو ایسے تجربے سے نہ گزرنا پڑے اور وہ اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے میں کامیاب ہوں۔ ورنہ اس طرح صرف تانگہ پارٹیوں کی صف میں ایک اور پارٹی کا اضافہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اب دیکھتے ہیں مزید کون کون سے بڑے نام ان کے ساتھ ملتے ہیں اور وہ عوام کو کتنا اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور ان کو کتنی پذیرائی ملتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭
پری مون سون کی دھواں دھار انٹری موسلادھار بارش
 بنگلہ دیش اور بھارت میں زبردست سیلاب اور تباہی مچانے والے پری مون سون کے بادلوں کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی سندھ پنجاب اور خیبر پی کے میں طوفانی بارشوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ تیز ہوائوں کے ساتھ طوفانی بارش نے جہاں جل تھل ایک کر دیا ہے۔ وہاں ندی نالوں میں سیلاب کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ کئی شہروں دیہات ااور نشیبی علاقوں میں پانی کھڑا ہو گیا ہے۔ انتظامیہ نے الرٹ جاری کر دیا ہے۔ لوگ بھی سابقہ سیلابوں کی تباہی کے بعد پریشان ہو گئے ہیں اور ان کی پریشانی بھی بجا ہے۔ جب تک انتظامیہ پہنچتی ہے تب تک انکے کچے گھروندے، کھڑی فصلیں اور جھونپڑیاں بہہ چکی ہوتی ہیں۔ مال مویشی کا نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ 
پھر ان کی داد رسی کے بارہا اعلانات کے باوجود اس کام میں تاخیر ہوتی رہتی ہے۔ اب اس بار جو پری مون سون کا پہلا نظارہ ہو رہا ہے اس نے بنگلہ دیش اور بھارت میں وہ تباہی مچائی ہے کہ خدا کی پناہ ، دہلی اور اس کے اردگرد کے شہر و دیہات میں فٹوں کے حساب سے سیلابی پانی جمع ہے۔ پاکستان میں ابھی تک اس طوفانی رفتار سے بارش نہیں ہوئی۔ ابھی تک ہم اس طوفان بلاخیز سے محفوظ ہیں۔ آگے بھی اللہ کریم رحم فرمائے۔ اب ٹی وی رپورٹوں سے پتہ چل رہا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں بندوں کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ یعنی سارا سال یہ لوگ انتظار کرتے رہے کہ کب بارش کا موسم آئے اور یہ محکمے برساتی مینڈکوں کی طرح ٹرٹراتے باہر نکل پڑیں۔ دریائوں اور نہروں میں پانی کے بہائو میں اضافہ اور تیز بارش سے متعلق محکمہ موسمیات پہلے ہی خبردار کر چکا ہے۔ مگر ہم کانوں میں انگلیاں ڈالے رہتے ہیں، ہمیں ہوش تب آتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے۔ اب بھی لگتا ہے کہیں ایسا ہی نہ ہو اور سنبھلنے کا موقع پہ نہ ملے۔ کیوں کہ ہم نے دوبارہ دریاؤں ندی نالوں کی راہ میں یا ارد گرد تعمیرات کھڑی کر دیں ہیں۔
٭٭٭٭٭
چھوٹی مچھلیاں کھانے سے عمر دراز ہوتی ہے۔ طبی ماہرین
 اب یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو کیوں ہڑپ کرتی ہے۔ کہنے والے تو کہتے ہیں یہ سمندر کا قانون ہے کہ ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے اور سچ بھی یہی ہے۔ یہ صرف سمندر کا ہی نہیں انسانی معاشرے کا بھی قانون بن چکا ہے۔ یہاں بھی بڑی بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا کر اپنی زندگی بہتر بنانے پر تلی رہتی ہیں۔ 
اب جدید جاپانی ماہرین صحت نے تجربات اور تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ چھوٹی مچھلیاں کھانے سے انسانی عمر میں اضافہ ہوتا ہے صرف یہی نہیں  بلکہ یہ صحت کے لیے بھی مفید ہے اور خطرناک امراض بشمول کینسر سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی چھوٹی جسامت والی مچھلیاں ملتی ہیں مگر انہیں کھانے کا زیادہ رواج نہیں۔ سمندری ہو دریائی ہم بھاری بھرکم مچھلی پسند کرتے ہیں اور حیرت والی بات یہ ہے کہ یہی خوش خوراک لوگ گوجرانوالہ کے چڑے ہوں یا بٹیر بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ کئی لوگ تو حکیموں کے کہنے پر عام چڑوں کو بھی نہیں چھوڑتے اور یہ چڑی مار ان کو بھی کھا جاتے ہیں۔ ورنہ ہمارے ہاں جانور ہو یامچھلی یا فلمی ہیروئن فربہ ہی پسند کی جاتی ہے۔ جبکہ ماہرین کہتے ہیں جانور جتنا چھوٹا ہوتا ہے اتنا ہی صحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں پرندوں کا شکار عام ہے اور ان کا گوشت پسند کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے پرندے نایاب ہو گئے ہیں یہ تو اگر عرب حکمران پاکستان میں تلور اور چھوٹے ہرنوں کی افزائش نہ کریں تو یہ بھی کب کے ختم ہو چکے ہوتے۔ ویسے ہی جس طرح جی ٹی روڈ کے کنارے سے چڑے غائب ہو چکے ہیں۔ وہاں کے ہوٹل والے چڑوں کی جگہ دیگر پرندوں کو چڑا کہہ کر کھانے کے شوقین افراد کو کھلاتے ہیں۔ بہرحال امید ہے اب ہمارے ہاں بھی چھوٹی مچھلی کھانے کی عادت کو فروغ ملے گا۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن