کیا بھارتی اور پاکستان آرمی میں دوستی ممکن تھی؟

جیسا کہ پچھلے کالم (یکم جولائی 2024ء) بتایا جا چکا ہے کہ جب برصغیر کی آزادی کا فیصلہ ہوا تو بھارت ماتا کو دو آزاد ممالک میں تقسیم کرنے کا فیصلہ بھی ہوا۔ ہندو لیڈروں نے اس فیصلے کے خلاف کافی شور کیا لیکن مسلمانوں نے یہ فیصلہ من وعن تسلیم کر لیا تو یوں ہندوؤں کی تمام کوششیں بے کار گئیں۔ اس کے بعد سب سے بڑا مسئلہ جو اُس وقت سامنے آیا وہ برٹش انڈین آرمی تھی۔ انگریز اور ہندو نہیں چاہتے تھے کہ فوج تقسیم ہو کیونکہ دونوں طاقتوں کے مفادات متحدہ فوج سے وابستہ تھے۔ انگریزوں کے خیال میں فوج کو ایک رکھا جائے تاکہ دولتِ مشترکہ کے تحت فوج پر انگریزوں کا رعب اور کسی حد تک کمانڈ جاری رہے۔اس طرح وہ کمانڈر انچیف بھی اپنی مرضی کا لا سکتے تھے۔فوج کو اسلحہ کی سپلائی بھی برطانیہ سے جاری رکھی جائے گی اور یوںان کی مستقل آمدنی بھی جاری رہے گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی جنگ کی صورت میں دولتِ مشترکہ کے تحت امداد بھی حاصل کی جاسکتی تھی۔جبکہ ہندوؤں کے مفادات اور قسم کے تھے۔ان کی نظر میں پہلا فائدہ تو یہ تھا  چونکہ فوج کا جی۔ایچ۔ کیو دہلی میں ہو گا تو وہ کسی حد تک بھارتی حکومت کے زیرِ اثر رہے گا۔ دوسرا یہ کہ فوج میں ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی اس لئے ان کی نظر میں کمانڈر انچیف بھی انہی کا رہے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تقسیم کے کچھ عرصہ بعد متحدہ فوج کی مدد سے تقسیم ہند کو غیر فعال بنا دیا جائے گا لیکن مسلمانوں کی سوچ یہ تھی کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اس لئے اس کی فوج بھی اپنی ہو نی چاہئے بہر حال یہ سب کو ششیں ہوئیں لیکن مسلمانوں کے اٹل فیصلے کے سامنے دونوں طاقتیں ناکام ہو گئیں اور بالآخر فوج تقسیم ہو گئی۔ اب آخری کوشش یہ تھی کہ چلیں فوج تو تقسیم ہو گئی لیکن دونوں افواج کی آپس مین دوستی قائم ہو جائے۔اگست 1947ء میں ہندوؤں نے اپنے مسلمان دوستوں کو الوداعی ضیافت دی اور برگیڈئیر کری آپا نے بھارتی فوج کی طرف سے ایک جذباتی سی تقریر کی اور پاکستان فوج کو ایک سمبولک ((Symbolicقسم کی ٹرافی پیش کی۔
اس تفصیل کی سب سے متاثر کن بات وہ ٹرافی تھی جو کری آپا نے پاکستانی سینئر کمانڈر بریگیڈئیر محمد رضا کو پیش کی۔ چاندی کی اس ٹرافی میں ایک ہندو اور ایک مسلمان سپاہی کو کندھے سے کندھا ملا کر اپنی بندوقوں کے ساتھ ایک مشترکہ دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور یہی وہ آئیڈیا تھا جو کری آپا نے قائد کے سامنے بھی پیش کیا تھا۔ صرف کری آپا ہی نہیں بلکہ بہت سے ہندو اور مسلمان فوجی افسران کی مشترکہ کوشش تھی کہ ہماری یہ تقسیم دشمنی میں نہ بدلے بلکہ بہترین ہمسائے اور بہترین دوست ثابت ہوں۔ یہ کوئی غیر معمولی سوچ نہ تھی کیونکہ اُس وقت تک تمام آفیسرز اور تمام جوان ایک دوسرے کے دوست تھے۔ اکٹھے جنگ لڑ چکے تھے، فیملیز تعلقات بھی تھے ۔ لیکن اس پارٹی کے متعلق بعد میں پاکستان آرمی کے جنرل فضل مقیم نے لکھا کہ یہ سب کچھ دکھاوے کے لیے تھا اور بھارتی مخلص نہ تھے کیونکہ ایک تو کھانے کی میز پر نشستوں کی ترتیب کچھ اس طرح تھی کہ پاکستانی علیحدہ میزوں پر تھے اور بھارتی علیحدہ میزوں پر اور یوں عملی طور پر انڈیا کی تقسیم کو حقیقت کا رنگ دے دیا گیا تھا۔ دوسرا عین اُس وقت جب یہ ضیافت جاری تھی تو بھارت کے کچھ علاقوں میں مسلمانوں کا بیدردی سے قتل عام شروع ہو چکا تھا۔
جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے مسلمان سینئیر افسران میں بریگیڈئیر رضا اُس وقت اس پارٹی میں موجود تھے۔ پاکستان کی طرف سے ٹرافی بھی انہوں نے ہی وصول کی اور جوابی تقریر بھی کی۔ اُن کے متعلق خیال یہ تھا کہ پاکستان آرمی کے پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف بنیں گے لیکن کسی نہ کسی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ بریگیڈئیر رضا پاکستان اور انڈین آرمی کی دوستی کے لیے کافی پر جوش تھے۔ وہ اس بات کی شدید خواہش رکھتے تھے کہ دونوں ممالک کی افواج کے تعلقات خراب نہ ہوں بلکہ آپس کا رابطہ کسی نہ کسی صورت بدستور قائم رہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ تقسیم ہند کے بعد دونوں افواج ایک دوسرے کے خلاف کشمیر میں صف آراء ہوئیں۔ اس جنگ کے باوجود بریگیڈئیر رضا نے 31 دسمبر 1947ء کو جنرل کری آپا کو ایک ذاتی خط لکھا۔ کری آپا اُس وقت بھارت کی ایسٹرن کمان کے کمانڈر تھے۔ اس خط میں بریگیڈئیر رضا نے رابطے اور دوستی کی شدید خواہش ظاہر کی اور مشورہ دیا کہ ہندوستانی آفیسرز کی دلجوئی کی جائے کہ وہ اپنے پرانے پاکستانی دوستوں سے رابطے برقرار رکھیں اور اس کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے آرمی لیول پر کھیلوںکے مقابلے ہونے چاہئیں۔ خط کا متن حسب ذیل تھا۔
''May I  suggest that the Indian Officers be encouraged to keep in touch with old friends in the Pak Army. One of the strongest links between the two Dominions is the old Indian Army. Inter dominion sports at the army level would prove a great asset and help maintain a brotherly spirit between the two forces... I  hope that despite my voluntary desertion, I  shall always be considered a friend of India.''
    اس خط کو تو اس لیے پذیرائی نہ مل سکی کہ تقسیم کے فوری بعد دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کے خلاف کشمیر میں صف آراء تھیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے یا پھر تاریخ کا سنگدل مذاق کہ کشمیر جنگ کی کمان جنرل کری آپا کے ہاتھ میں تھی۔ کشمیر جنگ کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات پھر ٹھیک نہ ہو سکے۔ درمیان میں کوششیں ضرور ہوئیں لیکن دوستی کی بجائے نفرت کی دیوار بلند ہی ہوتی رہی حتی کہ 1965ء میں ایک دفعہ پھر دونوں فوجیں آمنے سامنے تھیں۔ اس دفعہ بھی یہ تاریخ کی ستم ظریفی تھی کہ بھارتی فوج کی کمانڈ جنرل این جے چودھری کر رہے تھے اور پاکستانی فوج کی جنرل محمد ایوب خان۔ دونوں سینڈ ہرسٹ ملٹری اکیڈیمی انگلینڈ کے تربیت یافتہ تھے اور گہرے دوست بھی تھے۔ جنرل کری آپا نے اس جنگ میں بھی اہم کرداراداکیاتھا۔(جاری) 

ای پیپر دی نیشن