پشاورمیں قیامت خیز سانحہ


عمران خان نے بطور وزیراعظم دھمکی دی تھی کہ اگر مجھے اقتدار سے نکالا گیا تو میں زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ٹھیک ہی کہہ رہے تھے۔ گزشتہ دنوں پشاور کی پولیس لائنز کی جامع مسجد میں خودکش دھماکہ ہوا ،جس میں 100بے گناہ نمازی شہادت سے ہمکنار ہوگئے ۔ عمران خان ہمیشہ سے کھلے عام ایسے سنگین جرائم میں ملوث گروپوں کیلئے ہمدردی کے بول بولتے آ رہے ہیں۔وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو طالبان خان بھی کہتے ہیں اور یہ بات بھی بڑے فخریہ انداز میں سینہ تان کر کہتے ہیں کہ انہیں وار آن ٹیرر میں پاکستان کی شمولیت پسند نہیں تھی۔ وہ یہ بھی کہتے آ رہے ہیں کہ یہ ہماری جنگ نہیں تھی‘ شاید وہ چاہتے ہیں کہ دہشت گردپورے ملک پر تسلط کر لیں ۔ ان کی پارٹی صوبہ خیبرپختونخوا میں دس سال اقتدار میں رہی ، پاکستان میں اس نے اقتدار کے چار سال تک مزے اڑائے ۔یہی وہ وقت ہے جب طالبان کے لئے نرم گوشے کی وجہ سے عمران خان نے پاکستان سے مفرور طالبان کیلئے واپسی کا راستہ کھولااور وہ صرف ایک صوبے میں نہیں ،بلکہ پورے پاکستان میں پھیل گئے ۔ وہ بلوچستان میں دھماکے کرتے ہیں، کراچی میں خون کی ندیاں بہاتے ہیں، سوات اور پشاور کے گردونواح میں بھتہ خوری اور دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں۔ عمران خان بڑی معصومیت سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اگر طالبان ان کے دور میں پاکستان آگئے تھے تو پھر اس وقت انہوں نے دھماکے کیوں نہیں کئے ؟اس پر یہ سوال ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ اگر وہ اسی وقت دھماکے شروع کردیتے تو پھر سارا کھیل کھل کر سامنے آجاتا۔ انٹرنیٹ پر ایسی وڈیوز موجود ہیں جن میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر عمران خان کو کچھ ہوا تو وہ سب خودکش دہشت گرد بن جائیں گے۔ 
خداکرے کہ میرے یہ سارے گمان غلط فہمی پر مبنی ہوں ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاک فوج نے ایک ریکارڈ قائم کیا تھا کہ جب امریکہ اور نیٹوکی متحدہ افواج دنیا میں دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں ناکام ہوگئی تھیں تو پاک فوج نے ضربِ عضب اور چند دوسرے فوجی آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کا پورے ملک سے مکمل طور پر صفایا کردیا تھا۔ حتیٰ کہ قبائلی علاقوں میں اس حد تک امن و امان قائم ہوگیا تھا کہ انہیں خیبرپختون خواہ کا آئینی طو ر پر جغرافیائی حصہ بنالیا گیا۔ 
دہشت گردی بے شک ساری دنیا کے لئے ایک ناسور کی حیثیت رکھتی ہے ، تاہم یہ پاک فوج کو ہی کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے ایک منظم پلان کے تحت اس ناسور کو جڑسے اکھاڑ پھینکا۔ 
یہاں ایک وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث گروہ کا نام تحریک طالبان (ٹی ٹی پی ) ہے، یہ اپنے آپ کو پاکستانی طالبان کہلاتے ہیں ، ان میں دنیا بھر کے دہشت گرد شامل ہیں اورانہیں افغانستان میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را دہشت گردی کی مذموم کارروائیوں کی ٹریننگ دیتی رہی۔
طالبان کا دوسرا گروہ اپنے آپ کو افغان طالبان کہلاتا ہے ، یہ سب لوگ افغانستان کے شہری ہیں، انہوں نے سوویت یونین (روس) کیخلاف ایک کامیاب جنگ لڑی اور اسے نہ صرف ایک شکست فاش سے دوچار کیا ، بلکہ سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ۔ دیوار برلن ٹوٹ گئی ، مشرقی یورپ میں کیمونزم سے آزاد ریاستیں قائم ہوگئیں۔ انہی افغان طالبان نے نائن الیون کے بعد نیٹواور امریکی متحدہ افواج کےخلاف جنگ لڑی، بے شک یہ ایک طویل جدوجہد تھی، امریکی و نیٹوفورسز جدیدترین ،مہلک اسلحے سے لیس تھے، جبکہ افغان طالبان ان کے مقابلے میں نہتے تھے۔لیکن دنیا نے دیکھا کہ افغان طالبان نے پہلے ایک سپرپاور سوویت یونین کا دھڑن تختہ کیا، پھر دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو دھول چٹائی ۔نہ سوویت یونین نے واپس مڑ کر دیکھا، نہ امریکی فوج بھاگم دوڑ میں اس قدر حواس باختہ ہوگئی کہ اپنے جدید ہیلی کاپٹراور ٹینک چالو حالت میں چھوڑ کرفرار ہونا پڑا ۔بعض لوگوں نے انکے جہازوں کے پہیوں سے لٹک کر بیرون ملک جانے کی ناکام کوشش کی۔
امریکہ سمجھتا ہے اور غلط طور پر سمجھتا ہے کہ افغانستان میں اس کی شکست کا ذمہ دار پاکستان ہے ، وہ پاکستان کو بہرصورت مزہ چکھانا چاہتا ہے ، دوسری طرف بھارت بھی اپنے زخم چاٹ رہا ہے ۔ اس کی بھی کوشش ہے کہ وہ دہشت گرد وں کے ذریعے پاکستان میں ایک بار پھر کھلبلی مچادے۔ بھارتی نریندر مودی کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ وہ بلوچستان ،آزاد کشمیر اور گلگت وبلتستان کے عوام کو اسی طرح حقوق دلوائیں گے ، جیسے مشرقی پاکستان کے عوام کو دلوائے تھے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ 71ءمیں ہربھارتی نے بنگلہ دیش بنانے کی سازش کو کامیاب بنایا۔
 اب ایک ستم اور یہ ہوا کہ برسراقتدار افغان طالبان اس وقت تک ساری دنیا سے کٹے ہوئے ہیں، انہیں کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ ان کا سارا سرمایہ امریکی بنکوں میں منجمد پڑا ہے ۔ افغانستان کی معاشی حالت دگرگوں ہے ۔ سیاسی حالات بھی بگاڑ کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ لوگ اپنا پیٹ پالنے کیلئے اپنے جگرگوشوں ،بچوں تک فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ، اس پس منظر میں افغان طالبان کوئی ٹھوس خارجہ پالیسی بھی تشکیل دینے کے قابل نہیں رہے۔ پاکستان نے بارہا ان کو کہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئیں۔ لیکن طالبان حکومت بھی کوئی ٹھوس یقین دہانی کروانے کے موڈ میں نہیں ہے ۔ اب تو خود افغان فورسز پاکستانی فوجی دستوں پر حملے کررہی ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی المناک ہے کہ جس افغانستان کے لئے پاکستان نے دو مرتبہ قربانیاں پیش کی ہوں ، وہ اب پاکستان کو آنکھیں دکھارہا ہے ۔ بھارت نے افغان طالبان کی ڈھل مل پالیسی کی وجہ سے افغانستان میں دہشت گردی کے اڈے پھر قائم کرلئے ہیں، جو پاکستانی سیکورٹی فورسز پر متواتر حملے کرتے رہتے ہیں۔ 
اب تو انہوں نے انتہائی گھناﺅنے جرم کا ارتکاب کیا اور نمازیوں سے بھری ایک مسجد کو خودکش دھماکے سے اڑایا ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے دھماکے کی جگہ کا دورہ کیا، ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی، شہداءنمازیوں افسروں کے خاندانوں کی اعانت کیلئے 20,20لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے ۔ 
وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ ہم ایک ایک دہشت گرد کو کچلنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ آرمی چیف نے بھی کہا کہ دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائیاں ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کرسکتیں، ہم ان کو کٹہرے میں لائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح اے پی ایس سانحہ کے بعد قومی ایکشن پلان پر قوم نے اتفاق رائے کیا تھا، آج پشاور میں مسجد کا سانحہ بھی اسی قدر سنگین ہے ‘اس پر بھی ایک نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا جائے ۔ 
٭٭٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

 سکول میں پہلا دن ۔ دیدہ و دل

 ڈاکٹر ندا ایلی آج میری بیٹی کا سکول میں پہلا دن تھا ۔وہ ابھی بہت چھوٹی تھی ۔ مجھے سارا دن بہت پریشانی رہی ۔ پتہ نہیں اس نے ...