’’ دو نہیں ایک پاکستان‘‘ کوئی نیا نعرہ نہیں۔ دراصل اسکی بنیاد ’’حقیقی اسلامی نظام‘‘ ہے جس میں معاشرے میںرہنے والے ہر فرد کو ایک جیسے قوانین اور حقوق میسر ہوں چاہے وہ امیر ہو یا غریب، کسی مزدور کا بیٹاہو یا کسی طاقتور خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔ اصل میں تو پاکستان بنا ہی اس لیے تھا کہ مسلمانوں کو ایک ایسا معاشرتی نظام میسر ہو جس میں طبقاتی فرق کی بجائے سب کو انصاف اور برابر کے حقوق حاصل ہوں۔آزادی سے قبل مسلمان محکوم اور انگریز حاکم تھے۔ مسلمانوں کو ڈر تھا کہ انگریز سے آزادی کے بعد ہندو اس انگریز کی جگہ ’’ حاکم ‘‘ بن کر مسلمانوں کے حقوق سلب کرلیں گے۔ اسی لیے بٹوارا ہوا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ عوام کی امنگوںکے برعکس تھا۔ انگریز تو چلے گئے لیکن انگریزوں کے بعد ہندوئوں کی بجائے ایک اور ’’حاکم طبقہ‘‘ عام عوام پر مسلط ہو گیا ۔ اس طبقے کے افراد کہنے کو تو پاکستانی بھی تھے اور مسلمان بھی لیکن دراصل یہ کسی بھی عام پاکستان سے الگ ہیں کیونکہ انکو جو حقوق اور مراعات حاصل ہیں کوئی عام پاکستانی انکا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ بد قسمتی سے ہم انگریز سے تو آزاد ہو گئے لیکن اسکے بعد 73برس گزرنے کے بعد بھی یہ والا حاکم طبقہ آج بھی ہم پر سلط ہے اور ہم اس سے آزادی حاصل کرنے کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔کبھی احتجاج اور کبھی ووٹ کے ذریعے ۔ مزے کی بات ہے کہ اس تمام جد و جہد میں ہمارے رہبر اور رہنما اسی طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ہی ہوتے ہیں اور ہم ہر مرتبہ آزادی کے سراب کے پیچھے پیچھے بھاگتے بھاگتے ایک بار پھر ان ظالموں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔
دو پاکستان تو نہ کبھی تھے اور نہ ہیں۔ پاکستان ایک ہی ہے لیکن اس میں دو طبقے آباد ہیں۔ ایک عام آدمی اور دوسرا حاکم طبقہ جو عام آدمی کیلئے VIP ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی قانون دان ، دانشور یا عدالت اس لفظ ''VIP'' کی تشریح اور تعریف کر دے کہ یہ VIP آخر ہوتا کون ہے؟ کیا وہ سرکاری ملازم VIP ہے جو ’’عوام کا ملازم ‘‘ ہے اور ائیر کنڈیشنڈ سرکاری دفتر میں عوام کے پیسے سے خریدی گئی بجلی میں بیٹھ کر ، عوام کو بجلی اور دیگر سہولیات مہیا کرنے کی منصوبہ بندی کیلئے میٹینگز کرتا ہے؟ اور اسکے بعد عوام کے پیسے کے بل پراپنی سرکاری رہائشگاہ میں آرام کرتا ہے۔؟
یا پھر کیا کسی متوسط گھرانے کا وہ بچہVIP ہے جو تعلیم حاصل کر رہا ہے اور ہمارا مستقبل ہے ۔ کیا خود کو ’’ پبلک سرونٹ ‘‘ کہلوانے والے شخص کو تمام ضروریات کی ادائیگی عوام کے پیسے سے کرنا بہتر ہے یا پھر اس بچے کومفت سہولیات ملنا چاہیئں جس کا صبح امتحان ہے اور اسکو پڑھنے کیلئے لائٹ بھی میسرنہیں ۔ میرے لیے تو VIP وہ بچہ ہے جو ان حالات میں بھی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ وہ استاد حقیقی VIP ہے جو پاکستان کے مستقبل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے تراش رہا ہے۔ لیکن ہمارا حکمران طبقہ اس ’’حقیقی VIP ‘‘سے کہیں مردم شماری کا کام لیتا ہے تو کہیں پولیو کے قطرے پلوانے کا۔ دنیا میں کوئی اور ملک ایسا ہے جہاں استاد سے تعلیم کی بجائے بجائے گلی گلی دھکے کھانے کا کام لیا جاتا ہو؟
دوسری جانب خود ساختہ VIPs چاہے اعلیٰ افسران ہوں یا سیاستدان اور حکمران ، انکو تمام سہولیات ( تنخواہ کے علاوہ) مفت ملتی ہیں ۔ اساتذہ، ڈاکٹروں اور پڑھے لکھے اافراد کو تو کبھی بھی سٹرک پر مار پڑ سکتی ہے لیکن اس حکمران طبقے کو ہر قسم کی سہولت اور تحفظ حاصل ہے ۔ ان کو نہ کبھی کسی لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور نہ ٹریفک سگنل پر۔ کسی بھی جگہ اپنی باری کا انتظار کرنا انکی ہتک کے مترادف ہوتا ہے۔ کثیر تنخواہوں اور مشاہروں کے باوجود انکو روٹی، کپڑا، بجلی گاڑی اور بنگلہ ہر شے مفت ملتی ہے۔ اور وہ عوام جس کی خدمت انکا ’’فرض‘‘ اور ’’زندگی کا مقصد‘‘ ہے ، کو نہ بجلی میسر ہے نہ پانی، نہ روٹی۔ یہی حال علاج معالجہ ، رہائش اور دیگر ضروریات زندگی کا ہے۔ ہم نے پاکستان بنایا تو اس لیے تھا کہ اس پاکستان میں سب کو برابر حقوق حاصل ہونگے اور کوئی شخص VIP نہیں ہو گا۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد سے آج تک ہم اس VIP کلچر کے خاتمے کے نام پر ووٹ دینے کے علاوہ اس کلچر کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے۔ اور یہ نعرہ ایک سیاسی نعرہ بن چکا ہے اور الیکشن لڑنے والی ہر پارٹی کے منشور اہم حصہ ہوتا ہے کہ ہر پاکستانی کو بنیادی ضروریات سمیت انصاف، صحت اور تعلیم جیسی ضروریات برابر میسر ہونگی اور اس منشور پر کبھی عمل کرنے کی کوشش بھی نہیںکی جاتی۔
میرا سوال ہے کہ ان سرکاری افسران ، عوامی نمائندگان اور وزیروں مشیروں میں سے آجتک کو ن ایسا ہے جسے صحیح معنوں میں VIP کہا جا سکتا ہو اور جس کے نہ ہونے سے ملک کے حالات موجودہ حالات سے بد تر ہوتے؟ کیا ان میں سے کسی نے آجتک کوئی بے مثال پالیسی دی ہے ؟ کوئی ایجاد کی ہے؟ کوئی نیکی کی ہے جسے دنیا مانتی ہو۔ کوئی ایسا کام کیا ہو جس کے متعلق ہم فخر کر سکیں؟ اگر ٹریفک بلاک کر کے راستہ دینا بہت ضروری ہے تو اس استاد کیلئے ٹریفک بلاک کریں جو کلاس لینے جا رہا ہو۔
اس ڈاکٹر کیلئے راستہ خالی کریں جائے جو کو ئی آپریشن کرنے جا رہا ہو۔ کسی سائنسدان ، کسی مصنف یا موجد کیلئے ٹریفک روکیں کہ اسکا ایک ایک لمحہ قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ان خود ساختہ VIP حضرات میں کون ایسا ہے جس کے کہیں دیر سے پہنچنے سے ملک کا کوئی نقصان ہو جائیگا؟ یہ لوگ آخر کیوں اس ملک کیلئے ناگزیر اور ’’ خاص آدمی‘‘ ہیں؟ تلخ حقیقت صرف اتنی ہے کہ ہمارے ملک میں" There is a Class above the Class" اور انگریز تو چلے گئے لیکن یہ حکمران طبقہ اب بھی موجود ہے۔ او ر ظاہر ہے کہ یہ حکمران نہیں چاہتے کہ یہ نظام ختم ہو کیونکہ گر اسکا خاتمہ ہو گیا تو پھر وہ عوام سے کس نعرے پر ووٹ مانگیں گے۔
اسی طرح عام عوام نعرہ تو اس ’’ ظلم ‘‘ کے خاتمے کا لگاتی ہے لیکن شاید اسمیں آج تک اس لیے کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ انکے نعروں میں منافقت ہے اور انکی اصل کوشش یہ ہے کہ اس نظام کو ختم کرنے کی بجائے وہ کسی نہ کسی طرح اس اوپر والے طبقے کا حصہ بن جائیں کیونکہ جس طرح یہ انہی آزمائے ہوئے حکمرانوںکو بار بار اپنے اور مسلط کرتے ہیں صاف لگتا ہے کہ یہ خود چاہتے ہیں کہ ان نا انصافیوں کا خاتمہ نہ ہو۔ اسی لیے قیام پاکستان سے آج تک ہمارا ’’ حکمران طبقہ‘‘ ’’ کریں گے‘‘ اور ’’ہونا چاہئیے‘‘ سے آگے نہیں بڑھا۔ کیا کبھی عوام میں یہ شعور آئے گا کہ اس طبقے سے کہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ کیا ہونا چاہئیے اور مستقبل میں تم کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہو۔ ہمیں صرف یہ بتائو کہ ماضی میں اور ابتک تم نے کیا کیاہے؟ اگر نہیںکیا تو پارٹی یا محکمہ تبدیل کرلینے سے تم کیسے کوئی تیر مار لو گے؟
٭…٭…٭
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024