کورکمانڈرز کانفرنس! اپریشن عزم استحکام پر تنقید ڈیجیٹل دہشت گردی قرار

چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی زیرصدارت گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہونیوالی 265ویں کورکمانڈرز کانفرنس میں عسکری قیادت کی جانب سے انسداد دہشت گردی کیلئے اپریشن عزم استحکام کے فیصلہ پر ہونیوالی تنقید اور قیاس آرائیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے ڈیجیٹل دہشت گردی ریاستی اداروں کیخلاف سازش ہے۔ اس سلسلہ میں پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق کورکمانڈرز کانفرنس میں امن و استحکام کیلئے افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں اور پاکستانی شہریوں کی لازوال قربانیوں پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اجلاس میں ملکی سلامتی کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے عزم استحکام کے مختلف پہلوئوں پر مفصل تبادلہ خیال کیا گیا اور انسداد دہشت گردی کیلئے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کے ضمن میں عزم استحکام کو اہم قدم قرار دیا گیا۔ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ پاک فوج تمام اندرونی اور بیرونی چیلنجز ناکام بنانے کیلئے ہمیشہ تیار رہی ہے۔ انہوں نے پیشہ ورانہ مہارت اور اپریشنل تیاریوں کا اعلیٰ معیار برقرار رکھنے پر زور دیا اور کہا کہ درپیش چیلنجز کے باوجود پاک فوج پاکستان کے استحکام اور خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہے گی۔ 
کانفرنس کے شرکاء نے دہشت گردی اور غیرقانونی سرگرمیوں کا گٹھ جوڑ ختم کرنا وقت کا اہم تقاضا قرار دیا اور کہا کہ چند حلقوں کی جانب سے عزم استحکام کے حوالے سے بلاجواز تنقید اور مخصوص مفادات کے حصول کیلئے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں جبکہ انسداد دہشت گردی کیلئے اختیار کی جانے والی حکمت عملی میں عزم استحکام ایک اہم قدم ہے۔ کانفرنس میں علاقائی امن و سلامتی بالخصوص افغانستان کی صورتحال پر غور کیا گیا اور علاقائی امن و سلامتی کے فروغ کیلئے ٹھوس عزم ظاہر کیا گیا۔ 
اس حقیقت سے انکار تو قطعاً ممکن نہیں کہ ہماری سکیورٹی فورسز گزشتہ دو دہائیوں سے اس ارض وطن پر دہشت گردوں اور انکے ٹھکانوں و پناہ گاہوں کی سرکوبی کیلئے مختلف اپریشنز کے ذریعے سرگرم عمل ہیں اور اپنے ہزاروں جوانوں اور افسران کی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ملک کی سلامتی اور شہریوں کی جانوں و املاک کا تحفظ یقینی بنا رہی ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ افغانستان میں شروع کی گئی امریکی نیٹو فورسز کی جنگ میں پاکستان کے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے ردعمل میں ملک کے مقدر کا حصہ بنی اور ہماری سکیورٹی فورسز نے 2005ء سے اب تک ملک میں دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں قیام پاکستان کے وقت سے ہی موذی دشمن بھارت سے پالا پڑا ہے جو پاکستان کی خودمختاری و سلامتی تاراج کرنے کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے اور پاکستان کے اندر دہشت گردی پھیلانا بھی ہمارے اس دشمن ہی کے ایجنڈے میں شامل ہے چنانچہ عساکر پاکستان کو جہاں سرحدوں پر ملک کی حفاظت و دفاع کے تقاضے نبھانے ہوتے ہیں وہیں ملک کے اندر دشمن کی پھیلائی دہشت گردی اور دوسری امن دشمن خانہ ساز سازشوں کا سدباب بھی افواج پاکستان ہی کی ذمہ داری بنتی ہے اور ملک کے کسی علاقے میں اندرونی خلفشار پر قابو پانے کیلئے متعلقہ سول اتھارٹی کی جانب سے آئین کے تقاضے کے تحت عساکر پاکستان سے معاونت طلب کی جاتی ہے تو اسے یہ فریضہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کی بنیاد پر بہرصورت ادا کرنا ہوتا ہے۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عساکر پاکستان نے اپنی قیادتوں کی کمان میں ملک کے دفاع اور اندرونی امن و امان کیلئے ہر ذمہ داری پوری جانفشانی اور خداداد عسکری صلاحیتوں کے بل بوتے پر بحسن و خوبی انجام دی ہے۔ بے شک عساکر پاکستان کا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں اور اقوام متحدہ کی امن فورس میں بھی پاکستان کے فوجی دستے کو ہمیشہ کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ عساکر پاکستان کی صلاحیتیں اقوام عالم میں تسلیم شدہ ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا یہ کلچر بن گیا ہے کہ ملک کی اندرونی و بیرونی سلامتی کیلئے افواج پاکستان کے کردار کو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت جس میں لامحالہ ہمارے بیرونی دشمنوں کی سازشیں بھی شامل ہوتی ہیں‘ بلاجواز تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کلیدی ریاستی ادارے کے علاوہ اسکی قیادتوں پر بھی مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی فعالیت میں پاکستان کی ایک سیاسی جماعت نے‘ جس کا اقتدار بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہی مرہون منت تھا‘ اقتدار سے علیحدگی کے بعد اپنے سیاسی مخالفین‘ عدلیہ اور عسکری قیادتوں کو بے سروپا الزام تراشی کے تحت تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا جس میں اس جماعت کے سوشل میڈیا سیل نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ایسی الزام تراشی اور سوشل میڈیا پر شروع کی گئی پراپیگنڈا مہم کے باعث ملک کے عسکری ادارے ہی نہیں‘ پاکستان کا تشخص بھی مجروح ہوا جبکہ ایسی فضا کسی ملک کے دشمنوں کیلئے انتہائی سازگار ہوا کرتی ہے چنانچہ اس پراپیگنڈا مہم سے ہمارے دشمن بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا جس نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے کے تحت کابل انتظامیہ کی معاونت سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ 
ملک میں اب تک ہونے والی دہشت گردی میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور انکی بنیاد پر ہی افغانستان کی طالبان حکومت کو پاکستان کی جانب سے متعدد بار شٹ اپ کال دی جا چکی ہے مگر طالبان حکومت اس پر نہ صرف ٹس سے مس نہیں ہوئی‘ اسکی جانب سے پاکستان کو بھارت ہی کی طرح دھمکیاں دینے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ طالبان دہشت گردوں نے سی پیک پر کام کرنے والے چینی باشندوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانا شروع کیا تو اس پر پاکستان میں امن و امان کے حوالے سے چین کی جانب سے بھی سخت تحفظات کا اظہار ہوا۔ چنانچہ پاکستان نے ملک میں امن و امان کی بحالی اور چین کو مطمئن کرنے کیلئے دہشت گردوں کیخلاف ٹھوس بنیادوں پر اپریشن عزم استحکام شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس کیلئے ملک کی سول سیاسی‘ مذہبی اور عسکری قیادتوں کے مابین مکمل اتفاق رائے ہوا اور چین کی قیادت نے بھی اس پر اطمینان کا اظہار کیا مگر ملک کے بدخواہوں بالخصوص پی ٹی آئی اور اپوزیشن کی بعض دوسری جماعتوں کی جانب سے اس پر بلاجواز تنقید کا سلسلہ شروع کردیا گیا اور بالخصوص سوشل میڈیا کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔ اسی تناظر میں کورکمانڈرز کانفرنس میں اپریشن عزم استحکام کے خلاف جاری پراپیگنڈے کو ڈیجیٹل دہشت گردی قرار دیکر اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اپریشن عزم استحکام پر وزیراعظم شہبازشریف نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے بھی اس اے پی سی میں پی ٹی آئی کی شمولیت کا عندیہ دیا ہے۔ سیاست اور سیاسی‘ ذاتی مفادات اپنی جگہ مگر ملک کی سلامتی اور امن و استحکام کیلئے عساکر پاکستان کے ماتحت کسی بھی اپریشن کا ملک کے ہر طبقہ زندگی کے لوگوں کو بے لوث ساتھ دینا چاہیے۔ ملک سلامت ہے تو متعلقین کی سیاسی دکانداریاں بھی چلتی رہیں گی۔

ای پیپر دی نیشن