ٹیکس چوروں کو سزا دینے کا عزم  اور بجلی کے بڑھتے نرخ

وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت ایف بی آر کی اصلاحات سے متعلق علیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ 45 لاکھ افراد کی نشاندہی ہوگئی جو استعداد کے باوجود ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں۔ ٹیکس دینے کی استعداد رکھنے والے نان فائلر کو فوری ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ وزیراعظم نے کسٹم اپریزر کا صوابدیدی اختیار فوری ختم کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ ٹیکس چوری میں ملوث افسران و اہلکاروں کو سزا دی جائیگی۔ عوام کے پیسوں پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو معاف نہیں کیا جائیگا۔ اربوں روپے کی ٹیکس چوری روکنے کیلئے جدید ٹیکسیشن نظام اولین ترجیح ہے۔ عالمی سطح پر رائج بہترین ٹیکسیشن نظام پاکستان میں رائج کیا جائیگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عام آدمی بالخصوص تنخواہ دار طبقہ باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتا ہے اسکے باوجود اس طبقہ کو نان فائلر کیٹیگری میں شامل کیا ہوا ہے۔ اسکے علاوہ یہ طبقہ گھریلو استعمال کے سامان اور خوردونوش کی اشیاء پر بھی عائد بھاری ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہے جبکہ سابق وزیر خزانہ کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ منتخب ایوانوں میں بیٹھے تقریباً ساڑھے گیارہ سو ممبران میں سے ساڑھے آٹھ سو سے زائد ٹیکس کی مد میں ایک دھیلہ بھی نہیں دیتے۔ انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے میں کیا امر مانع ہے‘ سارا زور عام آدمی کو ہی نچوڑنے پرکیوں لگایا جا رہا ہے۔ ٹیکس چوری میں ملوث افسران اور اہلکاروں کو سزا دینے کا وزیراعظم کا عزم خوش آئند ہے مگر جب تک اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا‘ ملک میں ٹیکسیشن کا نظام عالمی سطح کے میعار کے مطابق نہیں بنایا جاسکتا۔ اس لئے عام آدمی کے بجائے ایوانوں میں بیٹھے اشرافیہ طبقات پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے نرخوں میں ایک بار پھر 3 روپے 32 پیسے اضافہ کردیا گیا جس کا اطلاق رواں ماہ جولائی سے ہوگا۔ اس وقت مہنگی بجلی عوام کی دسترس سے عملاً باہر ہو چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غریب آدمی گھر کا سامان بیچ کر بجلی بل ادا کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ بجٹ کی منظوری کے وقت قوم کو یہ مژدہ سنایا گیا تھا کہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر نظرثانی کی جائیگی مگر کمپنیوں کی من مانیاں بدستور جاری ہیں۔ بجلی‘ گیس‘ پانی کے نرخوں میں آئے روز اضافہ کرکے عوام کو تنگ آمد بجنگ آمد کا راستہ دکھایا جا رہا ہے۔ عوام سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور عوام دشمن پالیسیوں پر حکومت کو کوسنے دے رہے ہیں۔ حکومتی بے حسی اور خاموشی نجی پاور کمپنیوں کو مسلسل ہلہ شیری دے رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئی پی پی کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر نہ صرف فوری نظرثانی کی جائے بلکہ انکی اجارہ داری کا بھی سدباب کیا جائے۔ جب تک انہیں قابو نہیں کیا جاتا‘ مہنگائی کا خاتمہ ہو گا اور نہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو پائے گی جس کیلئے وزیراعظم کوشاں ہیں۔

ای پیپر دی نیشن