گورنمنٹ کالج ساہیوال کا ادبی مجلہ

کسی زمانے میں ہمارے تعلیمی ادارے شخصیات پیدا کرتے تھے۔ ان میں کھیلوں کے میدان آباد تھے، علمی اور ادبی انجمنیں اپنی تقریبات سے طلبہ میں شعور کی دولت کو عام کررہی تھیں۔ ہر اہم یونیورسٹی اور کالج کا ادبی مجلہ علم وادب کی آبیاری میں ایک اہم کردار ادا کرتا تھا۔ اداروں میں طلبہ کی سیاسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہوتی تھیں۔ ممکن ہے اس زمانے میں کسی کو تلخ تجربہ بھی ہواہو لیکن اسی ماحول سے زندگی کے ہرشعبے میں اہم شخصیات نے تربیت پاکر عملی زندگی میں قدم رکھا۔ یہی تعلیمی ادارے تھے جہاں سے طلبہ نہیں بلکہ شاعر، ادیب، صحافی، ماہر معاشیات، سیاست دان اور علمائے کرام پیدا ہوتے تھے۔ سچ کہتے ہیں اپنے کیے کاعلاج نہیں، ارباب اختیارکی مہربانی سے رائج تعلیمی ماحول میں بہتری لانے کی مساعی نہیں کی گئیں، جان بوجھ کرنجی شعبے کو مضبوط کیا گیا، تعلیمی اداروں نے بھی انسانی تربیت کے اس پاکیز ہ فریضے کو اپنے کندھوں سے اتار پھینکا۔ جب کامیابی کے حصول کے لیے ”رٹو طوطے“ کی طرح چندکتابیں اور نوٹس پڑھ لینا ہی کافی بنا دیا گیا تھا، تو تربیتی عمل کا ثانوی حیثیت اختیار کرنا فطری تھا۔ طلبہ وطالبات کو بھی اسکی ضرورت نہ رہی۔ اندازہ کریں ہمارے ملک میں اس وقت مختلف تعلیمی نظام رائج ہیں، جب آپ اپنی آنے والی نسلوں کی فکری تربیت میں شروع سے فرق روا رکھیں گے تو طبقاتی تقسیم میں کمی کیسے آسکتی ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے اس وقت قدآور لوگ نہیں بلکہ بالشتیے پیدا کررہے ہیں۔ اکبرالٰہ آبادی نے درست کہا تھا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کوکالج کی نہ سوجھی 
مادیت کے اس دور میں میں اگر کہیں باد سحری کا کوئی جھونکا آجائے تو دل خوشی سے سرشار ہو جاتا ہے۔ حیف ہے کہ کچھ تعلیمی اداروں نے ان روایات کو زندہ رکھنے کی سعی کی ہوئی ہے۔ اس کی ایک مثال کے طورپر گورنمنٹ کالج ساہیوال کانام لیا جا سکتا ہے۔ یہ دانش کدہ اپنی دیدہ زیب عمارت، وسیع وعریض سبزہ زاروں، دل کش کھیل کے میدانوں، متنوع موضوعات پر مشتمل ملک انور لائبریری اور دیگر اعزازات کے ساتھ پنجاب کے سرکاری تعلیمی اداروں میں ایک انفرادی مقام رکھتا ہے۔
 اس ادارے کی عظیم الشان روایات اسے دوسرے کالجز سے انفرادیت عطا کرتی ہیں۔
یہاں مختلف اوقات میں ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر عبادت بریلوی، پروفیسر سی اے قادر، احسان دانش، جوش ملیح آبادی، مجیدامجد، مصطفی زیدی، ڈاکٹر وزیرآغا، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، سید منظورالکونین، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مجیب الرحمٰن شامی، سعیدآسی، سجادمیر اور فقیر حسین ساگا جیسی شخصیات تشریف لاتی رہی ہیں۔ متعدد کل پاکستان مشاعرے اور کانفرنسیں منعقدہوئیں۔ 1942ءمیں کالج کی ابتدا ہی سے سالانہ کھیلیں تسلسل سے جاری ہیں۔ اس کا ادبی مجلہ ”ساہیوال“ تسلسل سے شائع ہورہا ہے۔ ابتدا میں کچھ عرصے کے لیے یہ مجلہ ”آفتاب“ کے نام سے بھی شائع ہوتا رہا۔ مغلیہ عہد میں ساہیوال نام کی بستی‘ مقامی ساہی قبائل کی آبادی کی وجہ سے مشہورہوئی۔ 1857ءکی جنگ آزادی میں اس خطے کے مقامی لوگوں کی جدوجہد کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، یہاں کے قبائل بہادر اور جنگجو تھے، انگریز حکومت نے تعصب کی بنا پر ساہیوال کو منٹگمری بنادیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد انتظامیہ نے اس علاقے کے پرانے نام کی نسبت سے کالج کے ادبی مجلے کانام ”ساہیوال“ رکھا۔ یہاں تک کہ ساٹھ کی دہائی میں عوامی مطالبے کے بعد شہر کا نام منٹگمری سے بدل کر ساہیوال رکھ دیاگیا۔ یہ رسالہ عنوان کے لحاظ سے ایک تحریک کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دراصل اس مزاحمتی رویے کا ترجمان تھا جس کاآغاز احمد خان کھرل شہیدکی جدوجہد ِ آزادی سے ہوا۔ اس زمانے کے ساہیوال میں منیر نیازی کا ”سات رنگ“ اورضلعی انتظامیہ کا ”فردا“ اہم رسائل تھے، ادبی مجلہ ”ساہیوال“ بہت سے معاملات میں ان پر فوقیت رکھتاہے۔
ادبی مجلہ ”ساہیوال“ کی اشاعت کے 80 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ 1956ءمیں اس کا انگریزی اور 1966ءمیں اردو میں اقبال نمبر شائع ہوا۔ 1965ءکا شمارہ جنگ ستمبر کے حوالے سے جہاد نمبر تھا۔ مجید امجد کی وفات کے بعد پہلا مجیدامجدنمبر بھی اس رسالے نے شائع کیا۔ 1976ءمیں اس کا قائداعظم نمبر منظر عام پرآیا۔ 1994ءمیں کالج کی پچاس سالہ خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ادبی مجلہ ”ساہیوال“ کاگولڈن جوبلی نمبر شائع کیا گیا۔ دودہائی قبل کالج کے ایک سابق طالب علم ڈاکٹرسعادت سعید نے ”اقبال شناسی اور مجلہ ساہیوال“ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی جسے بزم اقبال لاہور نے 1989ءمیں شائع کیا۔ اس کتاب میں ”ساہیوال“ میں علامہ محمد اقبال کے حوالے سے شائع ہونے والے مضامین شامل ہیں۔ 2018ءمیں کالج کے ایک سابق طالب علم عمر شہزاد نے یونی ورسٹی آف سرگودھا سے ”اردو ادب کے فروغ میں’ادبی مجلہ سا ہیوال کا حصہ“ کے عنوان سے ایم فل کی سطح کا مقالہ تحریر کیا ہے۔ یہ مجلہ اس سرزمین سے وابستہ قدآور شخصیات کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنا۔ اس سے منسلک ادبا اور شعرا نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پراردو ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ مجلہ میں ہر مذہب اور رنگ ونسل کے شاعروں ادیبوں نے طبع آزمائی کی۔ اس میں اردو، انگریزی اور پنجابی کے علاوہ ہندی تحریریں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
ابتدائی دور میں یہ کالج میگزین دوحصوں (اردو، انگریزی) میں شائع ہوتا تھا، بعد میں اردو اور انگریزی کے ساتھ پنجابی کاحصہ بھی شامل کردیا گیا۔ ادبی مجلہ”ساہیوال“ گورنمنٹ کالج ساہیوال کی علمی وادبی روایات کا تسلسل ہے۔ اس کے نگران اساتذہ میں ڈاکٹرالف۔ د۔نسیم، ڈاکٹرصوفی ضیاءالحق، فاروق سید، سید ریاض حسین زیدی، قاضی حبیب الرحمٰن، مختار احمد خان، ڈاکٹر غلام مصطفی کھوکھر،قاسم سلیم، ڈاکٹر مرزا معین الدین، ڈاکٹر عامر غفار، ڈاکٹر ندیم عباس اشرف، مسز حنا جمشید اور ڈاکٹر محمد افتخار شفیع شامل ہیں۔
کالج کے جن طلبہ وطالبات نے ادبی مجلہ ”ساہیوال“کے ذریعے لکھنے کا آغازکیا ان میں ناصر شہزاد، ظفر اقبال، ڈاکٹر خورشید رضوی، فرخندہ لودھی، جمیلہ ہاشمی، سائرہ ہاشمی، عباس اطہر، سجادمیر، مجیب الرحمٰن شامی، طارق عزیز، ڈاکٹر محمدامین، غلام حسین ساجد، شرافت ندیم، احسن عالم، سید دانیال ساجد، خالد طور، فہیم جوزی، شیردل، نسیم سندھو، سعادت سعید، سعیدالرحمٰن فرخ، مسعود پوسوال، ریاض پوسوال، خواجہ مہدی حسن، الفت رسول‘ ڈاکٹر نیرصمدانی، عبدالجبار شاکر، مشتاق شیدا، جاویداقبال ندیم، عباس تابش، مظہر ترمذ ی، ایزد عزیز، صلاح الدین ایوبی، اختر سعید، اشرف قدسی، عبدالقیوم صبا، جلیل نقوی، نسیم اخگر، قاضی حبیب الرحمٰن، مظفر حسین وڑائچ، اکرام الحق سرشار، واصف سجاد، علی رضا، ڈاکٹر اکرم عتیق، ندیم صادق، کاشف حنیف، عاصم اسلم اور امتیازبٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ادبی مجلہ ”ساہیوال“ کا تازہ شمارہ حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔ اس کے طالب علم مدیران میں مہرعلی، اقراعرفات، جویریہ بی بی، عاصم مقصود، مبین کوثر‘ عشوہ عباس اور لائبہ خلیل شامل ہیں۔ ادبی مجلہ ”ساہیوال“ میں شاعری، تنقید، فکشن، یادداشتیں، معلومات عامہ اور تراجم شامل ہیں۔ معیار کے لحاظ سے یہ شمارہ نہایت عمدہ ہے، ہمارے تعلیمی ادارے طلبہ وطالبات سے میگزین فنڈ کی مد میں لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں لیکن کالج میگزین شائع نہیں کرتے۔ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام کو چاہیے کہ سربراہان ادارہ کو کالج میگزین کی اشاعت کا پابند کریں۔ ادبی مجلہ ”کی اشاعت ادارے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹرممتازاحمدکی ذاتی کاوش کا نتیجہ ہے۔ ان کے ساتھ نگران اعلیٰ پروفیسر مرزامعین الدین کی معاونت شامل تھی۔ اس شمارے میں قاضی حبیب الرحمٰن مرحوم کے حوالے سے خصوصی گوشہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ اپنے مشاہیرکو یادرکھنے کی عمدہ روایت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

 سکول میں پہلا دن ۔ دیدہ و دل

 ڈاکٹر ندا ایلی آج میری بیٹی کا سکول میں پہلا دن تھا ۔وہ ابھی بہت چھوٹی تھی ۔ مجھے سارا دن بہت پریشانی رہی ۔ پتہ نہیں اس نے ...