کرونا کی حقیقت اور اصلیت کے متعلق تو پتہ نہیں تاریخ میں مورخ کیا لکھے گا لیکن اس کرونا کی بیماری کے خوف کی وجہ سے ڈپریشن اور غیر یقینی کی جو فضاء آج پورے معاشرے کو گْھپ اندھیروں میں لئے بیٹھی ہے اس سے آج مجھے ایک فلمی ڈائیلاگ بہت یاد آ رہا ہے جو تقریباً آج سے چودہ پندرہ سال پہلے ایک زمانے بہت مشہور ہوا تھا کہ "سالاایک مچھر پوری قوم کو ہیجڑہ بنا دیتا ہے"۔ ویسے تو تھا یہ ایک فلمی ڈائیلاگ لیکن درحقیقت حالات کے جبر کے ہاتھوں ستائے کچھ لوگوں نے بْغض میں اور کچھ شاہ سے زیادہ شاہ کے نادان وفاداروں کے غیر ضروری ردِعمل نے اس ڈائیلاگ پر ایسا رنگ چڑھایا کہ یہ اپنے دور کی اصل فلم سے ہٹ کر ایک ایسی فلم جسکا کینوس پر کوئی وجود نہیں تھا اس کا آئٹم سونگ بن گیا اور اتنا مشہور ہو گیا جیسے مولا جٹ فلم میں سلطان راہی کا وہ ڈائیلاگ کہ " مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مَر دا"۔ ایسی باتیں ایسی یادیں اکثر اوقات ماضی کے جھروکوں سے اس وقت آپکے ذہن پر دستک دیتی ہیں جب یا تو آپ جب بہت خوش ہوتے ہیں اور یاآپ جب بہت اْداس بہت رنجیدہ یا بہت خوف زدہ ہوتے ہیں۔ فلسفے کی حقیقت سمجھنے والے کہتے ہیں کہ راقم سے زیادہ قاری کا یہ استحقاق ہوتا ہے اور اس بارے انصاف بھی وہی کر پاتا ہے کہ کونسی بات زمینی حقائق کی روشنی میں کس طرح زیادہ موزوں قرار پاتی ہے لہٰذا اہل فلسفہ کے استادوں کے فرمان کے پیش نظر قارئین یہ بات میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آج جب سالے ایک مچھر سے ہزاروں درجے چھوٹے ایک وائرس نے پوری قوم نہیں پوری دنیا، پوری نوع انسانی کو ہیجڑہ نہیں بلکہ مردہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس بارے آپکا کیا خیال ہے کہ یہ ڈائیلاگ اس وقت کی بابت زیادہ موزوں تھا یا آج کی مناسبت آج کے حالات کی یہ اصل ترجمانی کر رہا ہے۔
اب آتے ہیں اصل حقیقت کی طرف، تاریخ ان حقائق سے بھری پڑی ہے کہ جب سے اس دنیا کا وجود میں آیا اس بنی نوع انسان نے فی زمانہ جس دور میں وہ رہ رہا ہوتا ہے اس دور کے کرتا دھرتا یا سرکردہ لوگ جنہیں آج کی زبان میں ہم لوگ ایلیٹ یا اشرافیہ کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں وہ اپنے خاص مذموم مقاصد کے حصول کیلئے عام لوگوں کی ذہن سازی کرتے رہتے ہیں۔ صدیوں پرانے زمانوں کے بند کواڑ کھولنے کی ضرورت نہیں آج کے ماڈرن دور کی ہی بات کر لیتے ہیں جو دوست آج بھی دیہات کے ماحول سے واقفیت رکھتے ہیں اور آج بھی اس رہن سہن سے واقف ہیں انہیں پتہ ہے کہ ہر گاؤں میں نمبر داروں یا وڈیروں کے ڈیرے یا دارے ہوتے ہیں جہاں صبح سویرے فجر کے بعد سورج چڑھتے ہی ان ڈیروں اور داروں پر عام لوگ کی آمد شروع ہو جاتی ہے ڈیرے پر موجود کامی حقہ کی چلم تازہ کرتا ہے اور چائے کا دور شروع ہو جاتا ہے اور پھر وڈیروں کا نامزد فرد اس انداز سے اس سلیقے سے چوہدری یا ملکوں کی بتائی بات اس سلیقے سے بیان کرتا ہے کہ دارے پر بیٹھا ہر شخص اس بات کو من وعن مان کر اسطرح اْٹھتا ہے کہ آج کی سب سے بڑی خبر اسی کے پاس ہے اور پھر وہ خبر دیہات کے ہر گھر کا حصہ بنتی ہے۔ دیہات سے آگے نکلیں تو اس واردات کی ڈیٹو کاپی آپکو قصبوں اور چھوٹے شہروں میں حجام کی دکانوں اور چائے خانوں پر ملے گی اور آپکو ایسی ایسی خبر ملے گی کہ جیسے دنیا کی تمام نیوز ایجنسیاں اس راوی کے پاس ہیں جو روداد بیان کر رہا ہوتا ہے لیکن زمینی حقائق اب اس سے بھی بڑی اور گہری حقیقت آشکار کر رہے ہیں کہ ان دیہات قصبوں اور چھوٹے شہروں میں جہاں یہ محفلوں میں سیاسی دستار بندیوں کی قسمت کے فیصلے اور پھر ان سے جْڑی نئی نئی خبریں بھی جنم لیتی ہیں وہاں بھی اب شہروں کی طرح اس ذہن سازی کے عمل کی ڈیوٹی چار انچ کی سکرین سے لیکر 40 انچ کی سکرین نے لے لی ہے۔اسے فکری اساس کا قحط الرجال کہا جائے یا وقت کا جبر کہ ان چار انچ سے لیکر 40انچ کی سکرین کے پیچھے بیٹھے دماغوں کو کیا اس بات کا احساس نہیں کہ یہ وقتی مقابلہ بازی جْگل بندیاں اور بریکنگ نیوز کے چکروں میں وقتی مالی فوائد کے چکر میں ہم کس طرح معاشرتی رویوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور آنیوالے وقت ہم اور ہماری آئندہ نسلوں کیلئے کیا عذاب لائیں گے۔
جہاں سے کالم شروع کیا اسی طرف واپس آتے ہیں یہ کرونا کی وباء کی حقیقت کو سمجھیں یہ ہے کیا۔ اس وائرس کا جنیٹک بلیو پرنٹ بتا رہا ہے کہ یہ بھی فلْو وائرس کی ایک قسم ہے لیکن اس دفعہ اس وائرس نے اپنے اپ اوپر کولیسٹرول یا پروٹین کی ایک چادر اوڑھی ہوئی ہے جس سے ہمارے جسم کے اندر موجود قوت مدافعت کے خلئے اس مہلک وائرس کو پہچان نہیں پاتے اور اس پر حملہ آور نہیں ہوتے جسکی بدولت یہ پروٹین میں لپٹے ہونے کی وجہ سے جسم کے دوسرے صحتمند خلیوں میں داخل ہو کر تباہی مچاتا ہے جسے پنجابی میں سجی وخا کے کھبی مارنا کہتے ہیں۔ اس وقت جب یہ سطور لکھ رہا ہوں پوری دنیا میں اس مرض کا شکار ہونے والوں کی تعداد 36,35,932 ہے جبکہ ان میں سے صحتمند ہو نیوالے افراد کی تعداد 11,87,421 ہے جو کہ کل تعداد کا تقریبا اٹھائیس فیصد بنتی ہے باقی جو افراد زیر علاج ہیں ان میں جو موت کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ تقریبا کوئی اکتالیس ہزار ہیں اور باقی 21,96,522 وہ ہیں جو معمولی نوعیت کی علامات کے ساتھ ہیں۔ اب اس پورے کھیل میں مجموعی اموات کی طرف آئیں تو وہ 2,51,622 ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر جب سے یہ وباء چلی ہے پوری دنیا میں اگر انکی اوسط نکالی جائے تو یہ تقریبا دو سے ڈھائی ہزار بنتی ہے۔ اب سنیئے چھوٹی سکرین سے لیکر بڑی سکرین پر بات کہاں سے شروع ہوتی ہے " کرونا کے وار،ظالم کرونا آج مزید اتنی جانیں لے گیا" ۔
آج اتنے نئے مریضوں کا اضافہ تعداد لاکھوں سے بڑھکر ملین میں پہنچ گئی، بات کہیں رکتی نظر نہیں آتی پتہ نہیں اور کتنے چراغ بْجھیں گے، حکومتیں ناکام موت کا راج اور آخر میں بڑے دھیمے لہجے میں ذرائع بتاتے ہیں کہ متاثرہ افراد میں سے کچھ لوگوں کے صحتیاب ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔" فگرز کے ساتھ حقائق آپکے سامنے ہیں۔ یہ رننگ کمنٹری راقم کی نہیں ساری دن کی کاروائی دیکھ کر فیصلہ کیجئے " کیا سالا ایک وائرس مچھر سے ہزار گنا چھوٹا پوری قوم کو ہیجڑہ نہیں بلکہ مردہ بنا رہا ہے یا کوئی اور؟ اگر ہم فیصلہ نہ کر پائے تو تاریخ سچ ضرور لکھے گی۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024