بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے۔۔۔

محبت ایک فطری عمل ہے لیکن جہاں وفا ہو وہاں بے وفائی ہوتی ہے،جہاںمحبوب ہو وہاں رقیب ہوتا ہے، جہاں پھول ہوں وہاں کانٹے بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔یہ سب لازم وملزوم ہے لیکن زندگی کہیںرکتی نہیںبلکہ چلتے رہنے اور جئے جانے کا نام ہے۔بقول شاعرہم کو ان سے وفا کی ہے امید/جو نہیں جانتے وفا کیا ہے/کسی نے کیا خوب کہا ہے!/نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں/کوئی غیر، غیر ہوتا کوئی یار، یار ہوتا۔۔۔محبت ایک فطری جذبہ ہے جو انسان اور معاشرے کی ترقی میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ شاید وہ واحد نعمت ہے جو انسان کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے ملنی شروع ہوجاتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد تک ملتی رہتی ہے۔ ماں باپ اپنے ہونے والے بچے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے اور اولاد اپنے گزر جانے والے والدین کے لیے کیسے کیسے ایصال و ثواب کراتی ہے، صحیح راہ پر چلتے ہیں کہ کوئی طعنہ نہ دے کہ فلاں کے بچے کیا کررہے ہیں۔محبت نام ہے وفا کا، نبھانے کا، مان جانے کا، اطاعت کا، سر تسلیم خم کر دینے کا، سن لینے کا۔ آج کل کے دور میں تحفے تحائف کی آڑ میں ہٹ دھرمی اور انا پرستی کا جو دھندہ چل رہا ہے، اللہ ایسی محبت سے سب کو بچائے۔محبت مبالغہ آرائی کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ہوتی بھی ہمیشہ مادری زبان میں ہی ہے۔ جس زبان میں آپ دل کے حال کا اظہار نہ کرپائیں، دل لگی کا احساس نہ سمجھ پائیں اس زبان میں محبت اور اس زبان سے محبت بھلا کیسے ممکن ہے۔عشق، محبت، الفت، پیار، دل لگی، پسند، جھیل، جھرنا، چاند، تارے اور نہ جانے کتنے ہی استعارے ایجاد ہوگئے مگر محبت والوں کو آج تک کسر محسوس ہوتی ہے کہ محبوب کی تعریف کا حق ادا نہیں ہوا۔محبت وفا ہے۔ یہ دعوی کرتی ہے اور یہ دلیل چاہتی ہے۔ بے وفائی سے بڑا گناہ شاید کوئی نہیں۔محبت ہر معراج پر پہنچ کر پیاسی رہ جاتی ہے۔ تھوڑی اور کی طلب اسے اعتدال کی ساری بندشوں سے آزاد کردیتی ہے۔ 
کتنا ہی اونچا مقام مل جائے، چاہنے والا ناچیز ہی رہتا ہے۔ اگر آپ کی محبت اصولوں، ضابطوں اور وقت کی پابندیوں کے ساتھ منسلک ہے تو ہزار بار سوچیے کہ آیا محبت ہے بھی کہ نہیں۔کسی نے سچ ہی کہا ہے دیکھا جو بے رخی سے تو حیرت ہوئی مجھے/دنیا تو بیوفا تھی مگر تم کو کیا ہوا/کیوں کہ محبت کرنے والے سب کچھ برداشت کرلیتے ہیںلیکن محبت کی بے رخی اور بے وفائی کو برداشت نہیںکرپاتے۔محبت صلے کی محتاج نہیں نہ ہی اس کو کوئی صلہ چاہئے ہوتا اگر چاہئے تو محبت کے بدلے صرف وفا۔یہ کیا کہ تم نے جفا سے بھی ہاتھ کھینچ لیا/مری وفائوں کا کچھ تو صلہ دیا ہوتا۔لوگ دوسروں کو بے سکون کرکے خود کیسے سکون تلاش کر سکتے ہیں اگر آپ اپنے پاس کسی چیز کی فراوانی چاہتے ہیں تو پہلے وہ دوسروں کو دیا کریں۔ کیسے سوچا ہے آپ نے کہ آپ کسی کے ساتھ غلط کریں گے اور آپ کے ساتھ سب اچھا ہوتا رہے گا۔ دوسروں کی زندگی عذاب کرکے آپ ایک دن بھی سکون سے رہ کر دکھائیں۔ ذاتی مفادات اس قدر اہم ہوتے جا رہے ہیں کہ لوگ تمیز، تہذیب سب بھولتے جا رہے ہیں۔محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا/اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے۔بقول ندا فاضلی، ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے/پیار کیجیے پھرسمجھے زندگی کیا چیز ہے/زندگی کا ایک پہلو شاعر بشیر بدر نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ،کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی/یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا۔امر واقع یہ ہے کہ ایک انسان اگر ایک بار محبت میں چوٹ کھالے تو دوسری باروہ چوٹ نہیںکھاتا بلکہ زخم پر زخم دیتا ہے اور پھر سنگدل بن جاتا ہے،اگرچہ یہ غلط رویہ ہے لیکن زندگی کی تلخ حقیقت ہے۔
بقول فیض احمدفیض دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے/وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے۔ بقول شاعر،چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا/سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی۔۔۔فراق گورکھپوری نے جذبات کی بہترین عکاسی کی ہے اک عجب حال ہے کہ اب اس کویاد کرنا بھی بے وفائی ہے۔خود کو اہمیت دیں اگر مرد اپنی بے رخی اور بے توجہ سے سب کھو دیتا ہے جس نے جانا ہے کہہ دو کہ بھاڑ میں جائو، منتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے۔جن لوگوں کا خمیر محبت سے اٹھا ہو آپ انہیں واضح طور پر زندگی کے ہر میدان میں ترقی کرتا دیکھیں گے اور جن کی مٹی حسد اور شک پر مبنی ہے، وہ اپنی صلاحیتوں پر بھی شک ہی کرتے ہیں۔محبت میں ہجرت ممکن ہے، محبت سے ہجرت ممکن نہیں۔ نہیں بھاگ سکتے۔یہ تمہاری تلخ نوائیاں کوئی اور سہہ کے دکھا تو دے یہ جو ہم میں تم میں نباہ ہے میرے حوصلے کا کمال ہے بقول بشیر بدراجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو/نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے۔

ای پیپر دی نیشن

شرجیل اعوان اور قومی خدمت 

 محبِ وطن سیاسی ورکر وہ فرد ہے جو اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کی سیاست کا مقصد ...