ہفتہ ‘ 29 ذوالحج 1445ھ‘ 6 جولائی 2024ء

غیرمقبول بجٹ پیش کرنے کا مقصد آئی ایم ایف سے پروگرام حاصل کرنا ہے۔ علی پرویز ،وزیر مملکت برائے خزانہ۔
علی پرویزخزانے کی وزارت کے چھوٹے وزیر ہیں۔ اتنے بھی چھوٹے نہیں کہ نان اور پان میں فرق نہ کر سکیں۔ آئی ایم ایف سے پروگرام حاصل کرنے کے شوق میں خود تسلیم کرتے ہیں کہ غیر مقبول بجٹ پیش کیا ہے۔ غیر مقبول کو کوئی سخت کہتا ہے کوئی عوام دشمن قرار دیتا ہے۔ بڑے نام  والے ’’سائنسدانوں‘‘کے بنائے بجٹ کے بھی مہینوں بعد ضمنی بجٹ آنا شروع ہوتے ہیں۔ علی پرویز کی حکومت نے تین دن میں ہی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا ضمنی بجٹ لا پھینکا۔ عوام کو دلاسہ دیاہے یا اشرافیہ کو سنہرا خواب دکھایا ہے۔ کہتے ہیں کوشش ہے چھ ارب سے زیادہ کا پیکج ملے۔ یہ رمضان میں مخیر حضرات کی طرف سے غربا میں تقسیم ہونے والا راشن کا پیکج نہیں جو مستحق افراد ، بیواؤں ، رنڈووں ، جھولے لال اور بے جمالو کہنے والوں سمیت ’’ مستحقین‘‘ کندھے پر رکھ کر  لے جاتے ہیں۔ یہ پیکج ادھار ہے مگر ایسا ادھار جو چھوٹے وزیر نے واپس کرنا ہے اور نہ بڑے وزیر خزانہ نے اور نہ ہی ان وزیر وں کے مہاراجہ نے، اس چھ ارب میں سے عام آدمی کے حصے میں کیا آئے گا۔ حساب کریں تو 24 ڈالر  فی پاکستانی بنتے ہیں۔ جو ایک بلب اور پنکھا چلانے والے صارف کو آنے والے بل کا تقریباً نصف بنتا ہے۔ اگر وہ پنکھی جھل لے تو ایک ماہ کا بل ادا کر سکتا ہے۔ یہ چھ ارب اگر 25کروڑ عوام میں تقسیم کرنے کے بجائے چند سو خواص میں بانٹ دیئے جائیں تو ان کا کچھ بن جْڑ سکتا ہے۔ عوام کے حصے میں تو بھاگتے چور کی لنگوٹی ھی  آنی ہے جو تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ قرض کل ملنا ہے یا نہ جانے کب ملناہے۔بجٹ میں عوام کو گیلی جگہ پر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ ان کے سامنے گرم توا ہے۔ بندہ شکر کرتا ہے کہ گیلی جگہ پر ہی کھڑا ہے۔ حکومت کہتی ہیقرض ملے گا تو عوام کو ریلیف دیں گے مگر کب…؟  
٭٭٭٭٭
وزیر تجارت چوہدری شافع حسین نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا  واحد حل بتا دیا۔
ایسے نابغہ روزگاراورر دیدہ ور ہر معاشرے کی قسمت میں کہاں۔ ایسا حل بتایا کہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی طرح کل ہی سستی بجلی دستیاب ہوگی۔ اس کے لیے کھمبے لگانے کی ضرورت ہے نہ تاروں کے جال کی جو وبال بن جاتی ہیں۔ ان کا بتایاہوا حل سنیں گے تو قرض خواہ کی طرح آپ کے لبوں پر بھی مسکراہٹ رقص کرنے لگے گی۔مقروض سڑک کے کنارے اپنی اراضی میں پہاڑی کیکر کے پودے لگا رہا تھا۔ قرض خواہ نے آکر رقم کا تقاضہ کیا تو اس نے لنگی کا لنگوٹ سنبھالتے ہوئے کہا ’’لے سمجھ اب تیرا قرض اتر گیا، میں کیکر کے درخت لگا رہا ہوں۔ یہ بڑے ہونگے سڑک سے روئی کے گڈے ٹرالیاں گزریں گی۔ ان سے روئی کانٹوں میں پھنسے گی۔ میں اتار کر بیچوں گا اور تیرا قرض ادا کروں گا۔ اس کی دانشمندی پر قرض خواہ بے ساختہ ہنس پڑاتو مقروض نے اتراتے ہوئے کہا قرض واپس ملتا نظر آیا ہے تو دندیاں نکل رہی ہیں۔
چوہدری شافع حسین پنجاب حکومت کے وزیر صنعت و تجارت ہیں اور یہ دونوں فارموں پر الیکشن ڈنکے کی چوٹ کے بغیر جیتے ہیں کیونکہ اس دن ڈنکا بجانے والا ووٹ ڈالنے گیا ہوا تھا۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ سستی بجلی کا ایک ہی حل سولر انرجی ہے۔ سولر بجلی کیسے بنتی ہے۔ کیا دیگچی ، تانبہ کڑاہی، توا دھوپ میں رکھ کے بجلی حاصل کر لیں؟ سولر کی سہولت حکومت شاید اگلے 20 سال میں ہر صارف تک پہنچا سکے گی۔
 کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔
٭٭٭٭٭
بل زیادہ آنے پر رکشہ ڈرائیور نے رکشہ سڑک کے درمیان کھڑا کر کے ڈانس شروع کر دیا۔
احتجاج کا اپنا اپنا طریقہ اورطرز ہے۔ یہ عقل مند ڈرائیور تھا۔ چالان ہونے پر ایک رکشہ ڈرائیور نے اپنے رکشہ کو آگ لگا دی تھی۔ گویا روزی کا اڈا جلا ڈالا۔ فیصل آبادی رکشے والے نے سرِ بازار رکشہ کھڑا کر کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ اس پر تماشائیوں نے چند جگتیں لگائیں جواس کے جسم کے مختلف حصوں پر لگیں تو کہیں کھجلی اور کہیں گدگدی ہونے لگی۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے کپڑے اتار پھینکے اب وہ صرف جانگیے میں تھا اور ساتھ ہی احتجاجاً رقص کرنے لگا۔ اس کا مقصد لوگوں کو خاص طور بجلی کے بل کی جانب متوجہ کرنا تھا جس میں وہ کامیاب ہوگیا۔ اس نے اپنا کام کر دیا آ گے تیرے بھاگ لچھیے۔ یہ ڈرائیور صاحب کا جانگیہ ڈانس تھا۔ ایسے ہی ایک سردار جی کے ڈانس کا قصہ مشہور ہے۔ سردار جی میلے پر گئے۔ وہاں ایک جگہ لوک رقص ہو رہا تھا۔ سردار جی نے جوش میں آکر تہہ بند اتارپھینکا۔ اب وہ کچھے میں تھے اور محو رقص ہو گئے۔ رقص پر تماشائیوں میں سے کو ئی عش عش کر رہا تھا کوئی بس بس کہہ رہا تھا۔ اس نے گھر آکر اپنی پتنی کو بتایا کہ آج میں ناچ رہا تھا تو لوگ میرا کھچا دیکھ دیکھ کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ سردارنی  نے حیرانی سے اپنے نچلے ہونٹ پر انگلی رکھتے ہوئے صحن میں تار پر لٹکے کچھے کی طرف اشارہ کیا تو سردار جی نے کہا ہائیں!
٭٭٭٭٭
ہسپتالوں کے کچرے سے چوسنیوں سمیت کئی اشیاء بنائی جاتی ہیں جو انتہائی خطرناک ہے،فضل حکیم خان وزیر ماحولیات خیبر پختونخوا۔
اسپتال کے کچرے میں خطرناک اور بے ضرر دونوں طرح باقیات ہوتی ہیں۔ بے ضرر کچرے میں کاغذ، گتے، پیکیجنگ اور اسی طرح کی اشیاء شامل ہیں جبکہ خطرناک اشیاء میں دستانے،یورین بیگ، سرنجیں،پیتھالوجیکل، شارپس، فارماسیوٹیکل ویسٹ شامل ہیں۔اس کے علاوہ زائدالمیعاد ادویات ،ویکسین اور دوا ساز سامان کو سنبھالنے میں استعمال ہونے والی ضائع شدہ اشیاء جیسے بوتلیں، بکس، دستانے، ماسک، ٹیوبیں  بھی خطرناک ویسٹ میں شامل ہیں۔جن فیکٹریوں میں یہ کچرا جاتا ہے وہ بلا امتیاز بے ضرر اور خطرناک کے، ری سائیکل کر کے نئی مصنوعات بناتی ہیں جن میں برتن بچوں کے کھلونے اور چوسنی بھی شامل ہیں۔چوسنی شیر خوار بچے کو بہلانے اور مصروف رکھنے کے لیے مائیں اس کے منہ میں ان دنوں ڈال دیتی ہیں جب اسے ذائقے کا احساس نہیں ہوتا۔بچہ تھوڑا سا بڑا ہوتا ہے تو چوسنی کی جگہ لولی پاپ کا تقاضہ کرتا ہے۔چوسنیاں اچھے مٹیریل سے ھی بنتی ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ ہسپتال کے خطرناک کچرے سے بھی بنائی جاتی ہیں۔ویسے کچرے سے نہ جانے کیا کیا بنتا ہے۔نرم ملائم رنگدار اور خوشبودار ٹشو بھی ایسے یا ویسے کچرے سے بنائے جاتے ہیں۔مارکیٹ میں دستیاب کھلا اچار بنتا کوئی دیکھ لے تو اس کے کھانے سے ہی دل اچاٹ ہو جائے۔دیسی چینی بنانے کے لیے گڑ اور شکر کا خام مال ڈرموں میں ڈال کر کئی دنوں کے لیے رکھ دیا جاتا ہے۔جس دن چینی بنانی ہو اس روز اس خام مال کو بڑے کڑاہے میں ڈال کر ایک یا دو افراد پاؤں دھو کر کڑاہے میں داخل ہوتے ہیں۔ پاؤں دھونا  لازمی شرط نہیں ہے۔دنیا کی سب سے مہنگی کافی ہاتھی کے ذریعے پراسس کر کے تیارکی جاتی ہے۔ہاتھی کو کافی کے بیچ کھلا دیئے جاتے ہیں اس کے بعد کی کافی نوش نہ ہی سنیں۔

ای پیپر دی نیشن