ٹرانسپورٹ کی قلت‘ بس سٹینڈز کا نامناسب ماحول‘ ہزاروں طالبات تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور
لاہور (رفیعہ ناہید اکرام/ لیڈی رپورٹر) پنجاب حکومت کی طرف سے ویمن پیکج 2012 پر عملدرآمد کے بلند بانگ دعوو¿ںکے باوجود صوبائی دارالحکومت کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہزاروں طالبات ٹرانسپورٹ کے شدید مسائل کا شکار ہیں، تعلیمی اداروں میں موجود بسیں طالبات کی تعداد اور ضروریات کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہیں۔ گذشتہ روز نوائے وقت سے گفتگو میں مختلف بس سٹاپوں پر کھڑی لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی، کنیئرڈ کالج اور اپوا کالج کی طالبات اقرائ، انعم اور ردا نے بتایا کہ تعلیمی اداروں میں دستیاب ٹرانسپورٹ طالبات کی سفری ضروریات کو پورا نہیں کرسکتیںجس کی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے مگر وہاں بھی حالات ناگفتہ بہ ہیں، شہر بھرکے بس سٹاپوں کی حالت زار دیکھتے ہوئے وہاں سایہ، پانی اور سکیورٹی جیسی سہولیات کا سوچنا بھی محال ہے ۔ کوئین میری کالج اور اسلامیہ کالج کوپر روڈکی طالبات کائنات اور بسماءنے بتایاکہ بس سٹاپوںپر نوجوانوں کے گھورنے اور آوازے کسنے کی وجہ سے طالبات شدید ذہنی اذیت کا شکار رہتی ہیں،بس سٹاپوں پر بھی پولیس تعینات کی جائے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کی طالبات عاصمہ اور فوزیہ نے کہا کہ پنک بسیں چند روٹوں تک محدود ہیں،کئی کئی گھنٹے انتظار کی صعوبت برداشت کرنے کے باوجود آنے والی کھچاکھچ بھری بسوں میں طالبات کیلئے کھڑے ہونے کی جگہ حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ جناح ڈگری کالج برائے خواتین اور سمن آباد کالج کی طالبات عافیہ، اذکیٰ اور سدرہ نے کہا کہ گزشتہ ایک برس میں کرایوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے غریب اور نچلے متوسط طبقے کی طالبات شدید ذہنی و معاشی دباو¿ کا شکار ہیں اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔گلشن راوی کالج اور کلیة البنات کالج کی طالبات حرا اور مائدہ نے کہا کہ عورتوں کے حوالے سے مردانہ تعصبات کی وجہ سے خواتین موٹر سائیکل یا سکوٹر بھی نہیں چلاسکتیں اب یا تو بھائی یا باپ اپنے کام کاج چھوڑ کر ہمیں پک اینڈ ڈراپ دیتے ہیں یا پھرہمیں چھٹی کرنا پڑتی ہے۔ طالبات نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں بسوں اورپبلک ٹرانسپورٹ کی بسوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔