1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستانی قوم نے وہ تاریخی جذبہ دکھایا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا یادگار موقع تھا جب حکومت، افواج پاکستان اور عوام نے متحد ہوکر ملکی دفاع کی جنگ لڑی۔ شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار، سپاہی، مزدور، کسان، طلبہ، اساتذہ، سرکاری ملازمین سب اپنے اپنے انداز سے جنگ میں شریک تھے۔ راقم کو یہ روح پرور منظر یاد ہے۔ زندہ دلان لاہور دیگیں پکا کر فوج کے جوانوں کیلئے سرحدوں پر لے جارہے تھے۔ ہم طلبہ وطن پرستی کے جذبے سے سرشار واہگہ بارڈر پہنچ گئے اور پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ جنگ لڑنے کی پیش کش کردی۔ جوانوں کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔ جنرل ایوب خان نے ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب کرکے نیا ولولہ اور جذبہ پیدا کردیا تھا انہوں نے اپنے خطاب میں کہا تھا ’’دشمن کو پتہ نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘۔ 6ستمبر 1965ء کا دن پاکستانیوں کیلئے فخر اور مسرت اور ہندئوں کیلئے ڈرائونا خواب ہے۔ جب پاکستان کے شاہینوں نے دشمن کے طیارے نہ صرف فضائوں میں مار گرائے بلکہ ان کو فضائی اڈوں پر ہی نیست و نابود کردیا۔ 1965ء کی جنگ کے شہیدوں میں میجر عزیز بھٹی شامل ہیں جنہوں نے بی آر بی کینال لاہور پر اپنے جانثاروں کے ساتھ بھارتی افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کا جمخانہ لاہور پہنچ کر شراب پینے کا خواب چکنا چور کردیا۔ پاکستان کے جانثاروں نے دشمن فوج کو دس گھنٹے تک روکے رکھا۔ میجر عزیز بھٹی شہید کو نشان حیدر دیا گیا۔1965ء کے ایک اور ہیرو یونس حسن خان شہید ہیں جنہوں نے بھارتی فضائیہ کے اڈے پٹھان کوٹ پر حملہ کرکے 15طیارے تباہ کردئیے اور بھارتی دفاع کی کمر توڑ دی۔
میجر طفیل محمد شہید 1958ء میں بھارت کے ساتھ ایک معرکے میں شہید ہوئے ان کو بھی نشان حیدر دیا گیا۔ راشد منہاس شہید (نشان حیدر) نے 1971ء میں اپنی دھرتی کیلئے جان قربان کردی۔ میجر شبیر شریف شہید نے 1971ء میں شکرگڑھ کے محاذ پر دشمن فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ میجر اکرم شہید نے 1965ء کی جنگ میں بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھائے۔ پاکستان کی جنگوں کی تاریخ جرأت، بہادری اور شجاعت کی تاریخ ہے۔ پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے مادر وطن کیلئے اپنی جانیں نثار کیں اور پاکستان کے عوام بھوک اور ننگ کے باوجود اپنی بہادر فوج کے ساتھ کھڑے رہے۔ سپاہی مقبول حسین 1965ء کی جنگ میں گرفتار ہوا۔ چالیس سال تک بھارت کی جیلوں میں پورے عزم کے ساتھ ڈٹا رہا۔ گزشتہ دنوں اسکی وفات پر پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہزاروں فوجی اور سویلین بھارت کی قید میں رہے۔ ہر قسم کی صعوبت اور اذیت ان کے عزم اور حب الوطنی کے جذبے کو کم نہ کرسکی اور کسی قیدی نے مادر وطن کیخلاف کوئی بیان نہ دیا۔
پاکستان کے سکیورٹی کے ادارے طویل عرصے سے دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑرہے ہیں جس میں فوج، رینجرز، ایف سی، پولیس اور شہری 80ہزار جانیں قربان کرچکے ہیں۔ پاکستانیوں نے ہر محاذ پر قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ پاک فوج کو عوام کا بے مثال تعاون حاصل رہا ہے۔ عوام باشعور ہیں اور جانتے ہیں کہ ریاست کے ہر ادارے میں خامیاں موجود ہیں مگر جب بھی آزمائش کی گھڑی آتی ہے پاک فوج نے عوام کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ 6ستمبر پاکستان کا تاریخی دن ہے جب پاک فوج کے جوانوں نے اپنے سے کئی گناہ بڑی فوج کے جارحانہ منصوبے خاک میں ملادئیے جس کے بعد پاک فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہونے لگا۔ 6ستمبر پوری قوم کے لیے فخر کا دن ہے ہم سب کو یہ دن پورے جذبے، عزم اور جوش و خروش کے ساتھ منانا چاہیئے تاکہ پاکستان کے دشمن جان لیں کہ مادر وطن کے دفاع اور سلامتی کیلئے پوری قوم متحد اور منظم ہے۔ دہشت گرد حملوں میں درجنوں سیاستدان، مذہبی رہنما، وکلائ، ڈاکٹر، مفکر اور اساتذہ شہید ہوئے جن میں محترمہ بے نظیر بھٹو، حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شامل ہیں۔ پاک افواج کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرکے ان کو انتخابی کامیابی کی مبارک باد دی۔ وزیراعظم نے وفاقی وزراء کے ہمراہ جی ایچ کیو کا تفصیلی دورہ کیا جو آٹھ گھنٹے جاری رہا۔ وزیراعظم کو سکیورٹی معاملات کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ نئے وزیراعظم کے دورے کے بعد سول ملٹری تعلقات معمول پر آگئے۔
بدقسمتی سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے ہی نامزد سپہ سالاروں کے ساتھ باہمی اعتماد کا رشتہ برقرار نہ رکھ سکے جسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ریاست کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے مگر ان میں یہ صلاحیت موجود نہ تھی۔ جب بھی پاک فوج کی قیادت سے انکی ملاقات ہوتی تو وہ اختیارات کے باوجود خارجہ اور سکیورٹی امور کے حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر رہتے اور ہر ایشو پر اکثر یہ کہتے ’’تسی دسو‘‘ میاں نواز شریف امانت اور دیانت کے حوالے سے بھی اپنا وقار بحال رکھنے میں ناکام رہے ان کیخلاف کرپشن کے الزامات نے بھی ان کی اخلاقی اتھارٹی کو متاثر کیا۔ ٹھوس شہادتیں سامنے آئیں جن سے اس رائے کو تقویت ملی کہ میاں نواز شریف پاک فوج کو کمزور کرنا چاہتے ہیں تاکہ سلامتی کا یہ ادارہ بھی ریاست کے دوسرے اداروں کی طرح حکمران اشرافیہ کا یرغمال بن کررہ جائے۔ میاں نواز شریف نے برملا اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاک فوج اور عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کرینگے۔ میاں صاحب یہ سوچنے سے قاصر رہے کہ وزیراعظم اپنی مثالی اور معیاری کارکردگی سے ہی اپنی آئینی رٹ ریاستی اداروں پر نافذ کرسکتا ہے۔
نومنتخب وزیراعظم عمران خان شہرت کے اعتبار سے مختلف شخصیت ہیں۔ انکی نیک نیتی، دیانت اور عزم کی وجہ سے پاکستان کے اندر اور باہر ان کو قابل اعتبار سمجھا جاتا ہے۔ انکے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ قومی مفاد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ سینئر اینکرز کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے اپنے دل اور دماغ کھول کررکھ دیا اور ایک موقع پر یہ بھی کہہ دیا ’’اگر وہ عوام کو گڈ گورنینس نہ دے سکے تو وہ اقتدار کی کرسی چھوڑ کر گھر چلے جائینگے‘‘۔ جی ایچ کیو میں پاک فوج کی سینئر قیادت کے ساتھ ان کا رویہ شہنشاہانہ اور حکمرانہ نہیں تھا بلکہ وہ ایسے لیڈر نظر آئے جو مشاورت، مفاہمت اور اشتراک کے ساتھ پاکستان کی کشتی کو طوفان سے باہر نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے فوجی قیادت کو بے ساختہ باور کرادیا کہ سول حکومت سادگی اور کفایت شعاری کی پالیسی کا حصہ بنے۔ عسکری قیادت نے مثبت جواب دیا۔
وزیراعظم عمران خان چونکہ اختیارات کے ارتکاز کی بجائے اختیارات تقسیم کرنے اور ریاستی اداروں کو مستحکم اور فعال بنانے میں یقین رکھتے ہیں اس لیے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ انکے دور میں سول ملٹری تعلقات مثالی رہیں گے اور تمام ریاستی ادارے یکجہتی کے ساتھ پاکستان کو لاحق چیلنجوں کا مقابلہ کرینگے۔ اللہ پاکستان پر رحم کرے نئی قیادت کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور اسے عوام کی اُمیدوں اور توقعات پورا کرنے کا موقع مل سکے۔ پاکستانی قوم کو ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اُٹھ کر نئی حکومت سے تعاون کرنا چاہیئے تاکہ پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی کوششیں رنگ لائیں۔ پاکستان کی دشمن خفیہ ایجنسیاں ایک منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے عوام اور فوج کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنے کی پوری کوشش کررہی ہیں جو اللہ کے فضل سے ناکام رہی ہیں۔ عوام پورے عزم اور اعتماد کے ساتھ اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ انہوں نے 2018ء کے انتخابات میں ایسے تمام سیاستدانوں کو ناکامی سے دوچار کردیا جو پاک فوج کیخلاف بیانات جاری کرتے رہے۔ پاک فوج کو عوام کے اس اعتماد کو بحال رکھنے کیلئے اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں تاکہ پاکستان دشمن خفیہ ایجنسیوں کو ان کے خلاف پروپیگنڈے کا کوئی موقع نہ مل سکے۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024