مکرمی! نوائے وقت شمارہ 3 مارچ 2010ءمیں اسرار بخاری صاحب لکھتے ہیں ”ایتھوپیا کی ساحلی سرزمین سے جس کے نزدیک دریائے ایمیزن گزرتا ہے، کارپٹ فارمنگ کے ذریعے ایک سو ملین ڈالر چاول کی پیداوار حاصل کی گئی“ اس سلسلے میں ایک وضاحت ضروری ہے۔ اول تو ایتھوپیا ایک خشکی بند ملک ہے اور اسے سمندر کا ساحل نہیں لگتا۔ ہاں شمالی افریقہ میں صحرائے اعظم کے نیچے خشکی کی پٹی ”ساحل“ (بمعنی صحرا کا کنارہ) ضرور کہلاتی ہے جو مغربی ایتھوپیا، سوڈان، چاڈ، کیمرون، نائیجر، نائجیریا، برکینا فاسو اور مالی وغیرہ میں پھیلتی چلی گئی ہے۔ دوم دریائے ایمیزن کا تعلق ایتھوپیا یا افریقہ سے نہیں۔ دریاوں کا بادشاہ ایمیزن تو برِاعظم جنوبی امریکہ میں پیرو کے کوہستان اینڈیز سے نکل کر برازیل میں بہتا ہوا بحراوقیانوس میں آ گرتا ہے جہاں ایمیزن کا عظیم اور منہ زور دھارا سمندر کے پانی کو 70 میل پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ ایتھوپیا میں جس کارپیٹ فارمنگ کا ذکر ہوا وہ مغربی ایتھوپیا میں دریائے سوبت کی وادی میں ہوئی ہو گی جو سوڈان میں دریائے نیل ابیض (White Nile) سے جا ملتا ہے۔ ایتھوپیا کا سب سے بڑا دریا نیل ازرق (Blue Nile) بھی سوڈان میں بہتا ہوا دارالحکومت خرطوم کے پاس خرطوم (ہاتھی کی سونڈ) کی شکل میں دریائے نیل ابیض سے ملتا ہے۔ یاد رہے قدیم مصری زبان کے لفظ ”نیل“ کے معنی اردو والا ”نیل“ نہیں۔ دو تین ہفتے پہلے معین باری صاحب کا مضمون ”قرطبہ کی چابی“ ادارتی صفحے پر شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ اندلس کی آخری اسلامی ریاست غرناطہ کے سلطان ابوعبداللہ نے مسیحی بادشاہ فرڈی ننڈ اور ملکہ ازابیلا کو غرناطہ کی چابی پیش کی۔ مگر غلط فہمی سے ”غرناطہ“ کی جگہ ”قرطبہ“ لکھتے چلے گئے۔ غرناطہ کا سقوط 2 جنوری 1492ءکو ہوا لیکن قرطبہ تو اڑھائی سو برس پہلے 1236ءمیں مسلمانوں کے ہاتھ سے چھن گیا تھا! (محسن فارانی .... دارالسلام، لاہور)
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024