آئندہ مالی سال کا بجٹ اور معاشی مسائل کا بوجھ

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار 9 جون کو آئندہ مالی سال 2023-24ءکے لیے میزانیہ یا بجٹ پیش کریں گے۔ اس وقت ملک جن سنگین معاشی حالات سے دوچار رہا ہے انھیں سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو حکومت بجٹ بنانے کے سلسلے میں بہت سی مشکلات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ یہ مشکلات کب حل ہوسکتی ہیں اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ حکومت نے بہت سی توقعات جس آئی ایم ایف پروگرام سے وابستہ کی ہوئی تھیں وہ تو ملتا نظر نہیں آرہا۔ اس کے باوجود حکومت معاشی مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے اور نئے مالی سال کے بجٹ کے سلسلے میں وزیراعظم کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس 6 جون کو طلب کیا گیا ہے جس میں وفاقی پروگرام اور صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا جائے گا اور نئے مالی سال کے ترقیاتی پلان اور معاشی اہداف کی منظوری کا امکان ہے۔ نئے سال کے لیے قومی ترقیاتی پلان کا حجم 2659 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔ اجلاس میں وفاقی وزراءکے علاوہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شریک ہوں گے۔ 
پاکستان کو اس وقت زرِ مبادلہ کی اشد ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ایک طرف ہمیں دوست ممالک کی جانب سے معاشی مددچاہیے اور دوسری جانب غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اسی سلسلے میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ترکیہ کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر حکومت کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ شہباز شریف نے یہ بات ہفتے کودورہ¿ ترکیہ کے دوران انقرہ میں دولسار انجینئرنگ کے چیئرمین عرفان آکر سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ عرفان آکر نے پاکستان میں توانائی اور تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے دولسار انجینئرنگ کی پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے میں دلچسپی کا خیرمقدم کیا اور حکومت کی طرف سے اس حوالے سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
دورہ¿ ترکیہ کے دوران شہباز شریف سے ترک کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن ( ٹی سی اے ) کے وفد نے بھی ملاقات کی۔ملاقات میں پاکستان کے تعمیراتی شعبے میں موجود بیرونی سرمایہ کاری کے وسیع مواقع پر گفتگو ہوئی۔ اسی طرح وزیر اعظم سے سنان آک کی ملاقات میں پاکستان میں وِنڈ پاور اور شمسی توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے گفتگو ہوئی ۔ ملاقات میں وزیراعظم کو زورلو گروپ کی پاکستان میں الیکٹرانکس، توانائی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کے بارے آگاہ کیا گیا۔ شہباز شریف نے ترکیہ کے سرمایہ کاروںکوپاکستان میں اپنی سرمایہ کاری بڑھانے کی دعوت دی ہے۔ وزیراعظم نے انادولو گروپ کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور اس کی وجہ سے ملک میں روزگار کی فراہمی کو سراہا۔ گلوبل انجینئرنگ گرلز پراجیکٹ پاکستان میں یہ منصوبہ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی انجینئرنگ اور ریاضی میں خواتین اور لڑکیوں کو تجربہ فراہم کرے گا اور انھیں اپنا کیریئر بہتر بنانے کے قابل بنائے گا۔ 
ایک جانب وزیراعظم کے دورہ¿ ترکیہ سے حوصلہ افزا خبریں موصول ہوئی ہیں تو دوسری طرف اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا، آثار بتا رہے ہیں کہ معاشی تنزلی کا رجحان تھم چکا ہے۔ اب معاملات کو بہتری کی جانب لے جانا ہے۔ آئی ایم ایف نے کہہ دیا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہونے والا، پاکستان مشکل معاشی حالات سے دوچار ہے۔ تاجر برادری مشکل حالات میں حکومت کے ساتھ تعاون کرے۔ کراچی چیمبر آف کامرس کے 11 رکنی وفد، پاکستان سٹاک اےکس چےنج اور پاکستان بزنس کونسل کے وفود کے ساتھ ملاقات اور مےڈےا ٹاک مےں وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ مالیاتی گنجائش کم ہونے کے باعث تاجر برادری زرتلافی اور مراعات طلب نہ کرے تاہم حکومت دستیاب وسائل میں صنعتی شعبے کے لیے نئے وفاقی بجٹ میں بہتر اقدامات کرے گی۔ وفود نے اپنی بجٹ تجاوےز دےں اور تجارتی و صنعتی شعبے کو درپیش خام مال کی درآمدات پاور گیس ٹیرف سمیت دیگر مسائل سے آگاہ کیا۔
تجارتی و صنعتی شعبے واقعی مشکلات کا شکار ہیں اور اگر حکومت کی جانب سے انھیں ریلیف فراہم نہیں کیا جاتا تو ان کے لیے معیشت کو سہارا دینا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اسحاق ڈار کی یہ باتیں تو بہت حوصلہ افزا ہیں کہ اس وقت ہمیں مسائل کا سامنا ہے لیکن ہم ان پر قابو پالیں گے۔ حالات کو مزید خراب ہونے سے روک لیا ہے اور اب حالات کو بہتری کی جانب لے جا رہے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ محض باتیں ہی ہیں یا ان سے کوئی حقیقی خیر بھی برآمد ہوتی ہے۔ گزشتہ تقریباً سوا سال کے دوران حکمران اتحاد کی طرف سے کیے گئے وعدے اور دعوے زبانی جمع خرچ ہی ثابت ہوئے ہیں جس کی وجہ سے عوام کا ان پر اعتماد بہت ہی کم رہ گیا ہے۔
اسحاق ڈار نے معیشت کے بگاڑ کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام کو قرار دیا۔ یہ بات صرف وفاقی وزیر خزانہ نے ہی نہیں بلکہ ملک کے اندر اور باہر کئی افراد اور ادارے اس طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ سیاسی قیادت کی باہمی کشمکش معیشت پر بہت برے اثرات مرتب کررہی ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کے ذریعے ان حالات میں حکومت عام آدمی کو کتنا ریلیف دیتی ہے یہ تو اگلے چند روز میں واضح ہو جائے گا لیکن سیاسی اشرافیہ اپنے ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھ کر ملکی اور عوامی مفاد کے لیے متحد ہوتی ہے یا نہیں، اس بارے میں تاحال کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جس طرح کے بیانات وغیرہ سامنے آرہے ہیں ان سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت اناو¿ں کی اسیر ہے۔

ای پیپر دی نیشن