پی ٹی آئی پھر پرانے روگ کی روگی ہو گئی۔ ایک کھلے خط نما پریس ریلیز میں آئی ایم ایف کے پاکستان کو قرضے کی حمایت واپس لینے کا اعلان کر دیا، مطلب مطالبہ کر دیا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو رقم نہ دے۔ ایسی ہی ایک حریت پسندی دو سال پہلے بنائی گئی تھی جب وفاق میں گریٹ خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد نے ختم کر دی تھی لیکن دو صوبوں میں اس کی حکومتیں موجود تھیں۔ شوکت ترین نے گریٹ خان کے حکم پر دونوں صوبوں کے وزرائے خزانہ کو ہدایت دی کہ وہ آئی ایم ایف کو خط لکھیں اور پاکستان کیلئے اس کا قرضہ رکوائیں۔ کے پی کے والے تیمور جھگڑا فوراً راضی ہو گئے، پنجاب والے وزیر نہ مانے، یوں حریت پسندی کا کبوتر اڑنے سے پہلے ہی پر کٹوا بیٹھا۔ اس سے بھی خاصا عرصہ پہلے جب نواز شریف وزیر اعظم تھے اور گریٹ خان اپنے ٹھیلے پر ’’پنکچرز‘‘ والا سودا بیچنے کی کوشش کر رہے تھے، ایک ایسی ہی کوشش کی گئی تھی اور اس سے بھی بہت پہلے ایک بار خان صاحب امریکہ جا پہنچے اور حکمرانوں سے ملاقاتیں کر کے ان سے فرمائش کی کہ چونکہ نواز شریف کی حکومت ناجائز ہے اس لئے پاکستان کی امداد بند کی جائے۔ کند ذہن امریکی حکمران سراپا ذہین و فطین خان کی بات لیکن سمجھنے سے قاصر ہے۔
اب ایک بار پھر اس پرانے درد نے انگڑائی لی ہے۔ لیکن سنا ہے کہ کسی کے ’’گھورنے‘‘ پر یہ انگڑائی ٹوٹ گئی ہے اور پارٹی کے ہتھ ٹوکا چیئرمین نے بات کو گول مول کرنے کی کوشش کر ڈالی ہے۔
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیئے ’’بوکھلا‘‘ کے ہاتھ۔ یعنی انگڑائی خود ہی توڑ دی۔
______
ہتھ ٹو کا چیئرمین نے ایک اور کمال کا انکشاف کیا ہے۔ فرمایا کہ آئی ایم ایف کا وفد اڈیالے جیل جا کر گریٹ خان سے ملاقات کرنا چاہتا تھا لیکن حکام نے اجازت نہیں دی۔
یعنی ملاحظہ فرمائیے، پاکستان کو آئی ایم ایف کا قرضہ لینے کی سخت محتاجی ہے اور اس سخت محتاج پاکستان نے ’’ان داتا‘‘ ہی کو انکار کر دیا اور غضب بالائے غضب یہ کہ آئی ایم ایف کا وفد اس انکار سے ذرا بھی بدمزہ نہ ہوا، معاملے کو پی گیا اور رسید تک نہ دی۔
______
سنا ہے کہ ’’حافظ صاحب‘‘ سنیاسی باوا بھی ہیں۔ پرانے لاعلاج امراض بوسیدہ و فرسودہ کا علاج کرنے کیلئے ان کے پاس تیر بہ ہدف ٹوٹکے، کْشتے اور ککھ ہیں۔ یہ اطلاع درست لگتی ہے کہ امراض گوناگوں کی مریضہ عرف مسماۃ پٹی پٹائی پارٹی کے بہت سے علاج وہ تشفی آمیز طریقوں سے کر بھی چکے ہیں۔ چنانچہ امید ہے، آئی ایم ایف کے قرضے والے درد کا بھی، جو رہ رہ کر اٹھتا ہے ، علاج وہ کر ہی لیں گے اور مریضہ کو جلد دیرپا افاقہ ہو جائے گا۔
______
قرضوں کی بات چلی ہے تو امیر جماعت اسلامی پاکستان قبلہ عمران الحق، معاف کیجئے گا، قبلہ سراج الحق کا تازہ خطاب قابل ملاحظہ بلکہ واجب الملاحظہ ہے۔ تو ملاحظہ ہو۔ این اے 125 میں انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ملک کو مسائل میں دھکیل رکھا ہے۔ ان دونوں جماعتوں نے ہی ’’تمام‘‘ قرضے لئے۔
تمام کے لفظ پر واوین (کامے) خبر کے متن میں نہیں ہیں بلکہ اس خاکسار نے خود لگائے ہیں تاکہ قارئین اس باریک نکتے کی طرف متوجہ ہو سکیں۔ نکتہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے اپنے پانچ ادوار حکومت میں قرضے لئے، ان سب کے حاصل جمع سے بھی زیادہ قرضے سراج الحق کے ممدوح خاص نے اپنے ایک ہی دور میں لئے لیکن قبلہ نے صداقت اور امانت کا حق ادا کرتے ہوئے یا کمال سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ بھی سب کے سب ان دونوں پارٹیوں کے کھاتے میں ڈال دئیے۔ ثاقب نثار کورٹ کا وہ ’’فرمان‘‘ سچ نکلا کہ گریٹ خان کے علاوہ اس ملک میں ایک ہی صادق امین ہے اور وہ قبلہ سراج الحق ہیں۔
تمام کا تسلط اس سے پہلے فقرے میں بھی ہے، یہ کہ ملک کے تمام مسائل کی ذمہ دار پیپلز پارٹی اور ن لیگ ہیں۔ گریٹ خان نے تو تمام مسئلے حل کر ہی دئیے ہوتے لیکن اس سے پہلے ان کی حکومت ہی حل کر دی گئی۔
______
سراج الحق صاحب محض صادق و امین ہی نہیں، دلیر اور جی دار بھی ہیں۔ کمزور لوگ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی والے اصول کے مطابق زمانے کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ نو مئی کے واقعات ہی کو دیکھ لیجئے، جسے دیکھو، ان کی مذمت کر رہا ہے بلکہ کئے ہی چلے جا رہا ہے۔ قبلہ سراج الحق واحد رہنما ہیں جنہوں نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے اس روز پیش آنے والے واقعات کی ذمہ داری سیکورٹی والوں پر ڈال دی۔ کہ وہ پراسرار طور پر اس روز غائب کیوں تھے، یعنی یہ سارا ڈرامہ انہی سکیورٹی والوں نے خود ہی کیا تھا تاکہ صادق اور امین اور معصوم خان کو ناحق پھنسایا جا سکے۔
______
9 مئی کی اس ’’پراسراریت‘‘ کا پردہ بھی گزشتہ روز کھل گیا۔
اندرونی ذرائع تک دسترس رکھنے والے اس باخبر اخبار نویس کا کہنا تھا کہ -9 مئی کو سیکورٹی اداروں کے ذمہ داروں نے ’’چیف‘‘ صاحب کو سعودی عرب میں یہ اطلاع دی کہ مسلح جتھے سیکورٹی تنصیبات کی طرف بڑھنا شروع ہوگئے ہیں جس پر ’’چیف‘‘ صاحب نے فوراً حکم دیا کہ خبردار ، گولی نہیں چلنی چاہیے، کوئی ایک بھی آدمی مرنا نہیں چاہیے۔
چنانچہ ہنگامی بنیادوں پو پولیس کو آگے کیا گیا۔ اور پولیس نے بہرحال، معاملات کو قابو کر ہی لیا ورنہ بات آگے تک جانی تھی جس کی تفصیل حنیف عباسی نے ، اتفاق سے، کل ہی کے روز بیان کر دی۔
______
ایک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عباسی صاحب نے پوری ذمہ داری اور وثوق سے کچھ باتیں بتائی ہیں اور کہا ہے کہ ایک بھی بات غلط ثابت ہوئی تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اس روز کور کمانڈرز ہا?س سمیت اہم سیکورٹی عمارات پر مکمل قبضے کا منصوبہ تھا جو حملہ آوروں کی تعداد کم ہونے کے باعث کامیاب نہ ہو سکا۔
ان کے اس دعوے پر تبصرے کی ضرورت نہیں البتہ ایک اور بات انہوں نے کی جس سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا فرمایا کہ ان حملوں کے دو ماسٹر مائنڈ تھے، ایک گریٹ خان اور دوسرا پنڈی والے شیخ آف چلّہ شریف، یہ بات درست نہیں ہو سکتی، اس لئے کہ ماسٹر مائنڈ تو ایک ہی ہوا کرتا ہے۔ ان کا فقرہ یوں ہونا چاہیے تھا کہ ایک ہیڈ ماسٹر مائنڈ تھا، دوسرا ’’سادہ‘‘ ماسٹر۔ اس صورت میں ان کی بات کو درست مانا جا سکتا تھا۔ یہ تنازعہ حل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہیڈ ماسٹر کون ہے اور محض ماسٹر کون۔