بحر بے وزن کا مصرعہ۔

امریکہ کے وائیٹ ہائوس حال ٹرمپ ہائوس میں پاکستان سے محبت کے دیئے جلائے جا رہے ہیں۔ ہر روز ، لگتا ہے کہ، ایک نئی شمع فروزاں ہوتی ہے۔ ٹرمپ کے سینے میں پاکستان سے پیار کا چشمہ ابلتا ہوا لگتا ہے۔ شاعر کو شبہ ہوا تھا کہ ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں، لیکن ہمیں شبہ نہیں، یقین ہے کہ ساقی نے کیا ملایا ہے اور کیوں ملایا ہے، خیر، صدر ٹرمپ کے ایک حالیہ انکشاف سے کسی فلم کا ایک سین یاد آ گیا۔ 
سین کسی شریف آدمی سے متعلق ہے جسے اس کا مخالف ، غنڈوں کے بجائے لڑکیوں سے پٹوا دیتا ہے ،(ظاہر ہے، مقدمہ یا رپٹ اتنی سنگین نہیں بن سکتی تھی، اس صورت میں)۔ سین یہ ہے کہ شریف آدمی کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھا چائے کافی پی رہا ہوتا ہے کہ لڑکیوں کا ایک جتھہ نمودار ہوتا ہے اور اس پر ٹوٹ پڑتا ہے، مار مار کر دنبہ بنا دیتا ہے۔ خوب پٹنے کے بعد وہ شریف آدمی رونے لگتا ہے اور رو رو کر لڑکیوں سے پوچھتا ہے کہ مجھے کیوں مارا (اور اتنا کیوں مارا)۔ تو لڑکیاں جواب دیتی ہیں کہ تم نے ہمیں چھیڑا تھا، ہمارے ساتھ نازیبا حرکات کی تھیں، اس لئے مارا۔ 
شریف آدمی رونا بھول جاتا ہے اور حیرت سے پوچھتا ہے،  میں نے کب چھیڑا؟۔ پھر مزید حیرت سے کہتا ہے، کمال ہے، میں نے لڑکیوں کو چھیڑا اور مجھے معلوم ہی نہیں۔ 
ذرا مختلف انداز میں ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ پاکستان کے پاس تیل کے بے پناہ ذخائر ہیں، اتنے کہ دنیا بھر میں اس کا چوتھا نمبر ہے، یعنی صرف تین ملک ایسے ہیں جن کے پاس پاکستان سے زیادہ تیل ہے اور امریکہ اب ان ذخائر کو نکالے گا، پاکستان گویا دبئی پلس بن جائے گا۔ 
’’شریف آدمی‘‘ اب اس سے زیادہ کیا کہہ سکتا ہے کہ کمال ہے، میرے پاس تیل کے اتنے ذخائر ہیں اور مجھے معلوم ہی نہیں؟ 
______
ساقی نے شراب میں کیا ملایا ہے، ہمیں سب معلوم ہے۔ تیل کے یہ ذخائر جنوبی ساحلوں پر ہیں، ساحل پر سی پیک نے بننا ہے۔ امریکہ ہمیں دبئی پلس بنانے کیلئے سمندروں میں آ کر بیٹھ جائے گا، سی پیک کا بیک اپ پھر کچھ عرصہ بعد__ کون ہو بھیّا، ہم تو تمہیں جانت نا ہیں__ کس نمی پرسد کہ بھیّا کون ہو۔ 
______
کہتے ہیں فرد معنے نہیں رکھتا، افراد آتے جاتے رہتے ہیں، کام چلتے رہتے ہیں۔ کوئی ہے یا نہیں ہے، اس سے امور زندگی میں فرق نہیں پڑتا۔ 
کیا واقعی ایسا ہی ہے۔ کم سے کم اتنا ضرور کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ سی پیک کو دیکھ لیجئے اور پھر موٹروے کو دیکھ لیجئے۔ دونوں منصوبے حقیقی معنوں میں پاکستان کو دبئی پلس بنانے ہی کیلئے تھے اور نواز شریف نے شروع کئے تھے۔ 2014 ء  میں نواز شریف کیخلاف آپریشن شروع کیا گیا اور دنگافساد پارٹی کو لانچ کیا گیا۔ سی پیک کو بریک لگی اور پھر لگی ہی رہی۔ 2017 ء میں نواز شریف نااہل قرار دے کر معزول اور قید کر دئیے گئے، انہوں نے موٹروے کو ملتان سے حیدر آباد تک توسیع دینے کا پلان شروع کر رکھا تھا، جاتے جاتے وہ ملتان سے سکھر تک کا حصہ مکمل کر گئے تھے اور سکھر سے آگے شروع ہونے والا ہی تھا کہ ان کی حکومت ختم ہو گئی۔ 
سات سال ہو گئے ، ان کے بھائی کو وزیر اعظم بنے 3 سال مکمل ہو گئے (اپریل 22ء  میں وہ اس عہدے پر آئے تھے، بیچ میں نگران حکومت تو محض ایک تسلسل تھا)۔ موٹروے جوں کی توں سکھر والے پل کے پاس رکی ہوئی ہے۔ 
کیا واقعی ’’افراد‘‘ کے آنے یا جانے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ 
______
خبر ہے کہ شوگر نواز حکومت نے شوگر ملز سے گنے کا پھوک کوڑی کے بھائو خریدا  یعنی اس کی قیمت خرید اچانک سے کئی گنا بڑھا دی۔ 
کرم نوازی کی حد ہے۔ یعنی جتنے پیسے شوگر ملز گنّا خریداری پر خرچ کرتی ہیں، اتنے ہی پیسے اسے ’’قیمتی ایندھن‘‘ یعنی پھوک کی فروخت سے مل جاتے ہیں گتّے کی قیمت تو گویا دینا ہی نہیں پڑی۔ مفت کے بھائوگنا لیا، چینی بنائی اور اب دو سو روپے کلو میں بیچ رہے ہیں۔ 
اور دو سو کے ’’سرکاری بھائو‘‘ پر بھی چینی ہے کہ کئی مقامات پر مل ہی نہیں رہی۔ کچھ بڑے تاجروں نے بتایا کہ سرکاری پلان اڑھائی سو روپے قیمت کرنے کا ہے، جب اتنے نرخ ہو جائیں گے تب چینی وافر ملے گی۔ 
اپنی حکومت ہے، نرخ ایک ہزار روپے کلو بھی کر دیں تو کون پوچھے گا، کون پوچھتا ہے۔ 
______
’’مرشد‘‘ کے بارے میں ایک وزیر نے انکشاف کیا کہ گزشتہ نومبر ایک ڈیل ہوتے ہوتے رہ گئی۔ مرشد معافی مانگنے پر تیار ہو گیا تھا لیکن اس کی شرط تھی کہ مجھے برطانیہ بھیجا جائے۔ حکومت بضد تھی کہ کسی عرب ملک بھیجیں گے، یوں ڈیل کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ 
وزیر کے انکشاف کے بعد بہت سے دوسرے حلقوں نے بھی اپنی اپنی معلومات افشا کیں۔ معاملے کی جزئیات میں تضاد پایا گیا۔ کسی نے کچھ کہا، کسی نے کچھ لیکن سب رودادوں کا ’’عاداعظم مشترک‘‘ یعنی متفق علیہ نکتہ ایک ہی تھا۔ یہ کہ مرشد ڈیل پر تیار تھا، معافی نامہ لکھ لیا تھا، برطانیہ بھجوانے کی فرمائش تھی جو مسترد کر دی گئی۔ 
ڈیل ہو جاتی تو مرشداتی حلقے اسے مرشد کا ٹرمپ کارڈ قرار دیتے جو بالآخر چل گیا۔ ازاں بعد مرشد لندن جا کر ، اپنے ’’بھائی‘‘ زک گولڈ سمتھ سے مل کر پاکستان کی حقیقی آزادی کی تحریک چلاتے اور کیا عجب، ایک جلاوطن حکومت بھی بنا ڈالتے، خود وزیراعظم ہوتے، زک گولڈ سمتھ صدر مملکت اور ’’قاسم سلمان‘‘ جنرل بنا کر آرمی چیف بنا دئیے جاتے۔ 
______
آج 5 اگست ہے یعنی اس تحریک کا نقطعہ عروج جو ملک بھر میں کہیں بھی دکھائی نہیں دی۔ 
بہرحال، مرشد نے نقطعہ عروج کی دو قسطیں کر دی ہیں، ایک قسط آج شام تک ادا کر دی جائے گی (اگر ادا کر سکے تو) اور دوسری قسط کی ادائیگی کیلئے 14 اگست کی تاریخ رکھ دی ہے۔ اس دوران امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں مرشد کی رہائی کیلئے پورے صفحے کا اشتہار چھاپا گیا ہے۔ اشتہار کے متن میں بہت کچھ ہے لیکن عجب بات ہے کہ اشتہار کا کوئی مناسب عنوان ہی نہیں۔ عنوان تو ہونا چاہیے تھا، کچھ اس طرح کا یا ٹرمپو یا ٹرمپ، مرشد خان بے قصور___ عنوان بے وزن لگا؟۔ وجہ یہ ہے کہ یہ مصرعہ ’’بحر بے وزن‘‘ میں کہا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

شرجیل اعوان اور قومی خدمت 

 محبِ وطن سیاسی ورکر وہ فرد ہے جو اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کی سیاست کا مقصد ...