معلوم نہیں کہ یہ اشعار ابتدا میں کس نے کہے تھے مگر اب تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کرونا جیسی مہلک وباء کے ضمن میں ہی کہا گیا ہوگاکہ
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملوگے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
اس وقت عالمی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو یہ امر ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کرونا اپنی تمام تر تباہ کاریوں کیساتھ ہر شے کو گویا نگل جانے کے درپے ہے تبھی عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادہانوم نے خبردار کیا ہے کہ اگر وائرس کے خلاف موثر اقدامات نہیں کئے گئے تو پاکستان میں جولائی کے وسط تک کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 2 لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے، ظاہر ہے یہ ایسی بات ہے جس پر جتنی بھی تشویش کا اظہار کیا جائے،کم ہے غالباً اسی پس منظر میں لاک ڈائون 9 مئی تک بڑھا دیا گیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بعض افراد اور حلقوںکی سرشت میں شرپسندی کا عنصر اس قدر غالب ہوتا ہے کہ اس ضمن میں وہ کسی اخلاقی ضابطے کے قطعاً قائل نہیں ہوتے۔ تبھی تو این ڈی ایس اور را کی شہ پر نام نہاد پی ٹی ایم کی جانب سے مشعال خان کے قتل پر سیاست کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے اور پی ٹی ایم کی کٹھ پتلیوں نے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف زہر اگلنا شروع کر رکھا ہے۔ ماہرین کے مطابق ان عناصر کی اس روش پر محض افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب سبھی جانتے ہیں کہ کچھ قوتیں دانستہ پاک چین دوستی میں دراڑ ڈالنے اور افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیںکیونکہ چین کی جانب سے افغانستان میں قیام امن بارے کی جانے والی کوششیں یقینا قابلِ تحسین ہیں۔ امریکہ طالبان امن معاہدے سے پیدا ہونے والا ابتدائی جوش اور توقعات، قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر اور متوقع انٹرا افغان مذاکرات کے بعد کسی حد تک ماند پڑ گئی ہیں۔افغانستان میں سیاسی بحران نے موجودہ افغان حکومت اور اس کی ساکھ کو کمزور کردیا ہے اور امن مخالف قوتیں اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق سیاسی مخالفین اپنی وقتی مصلحتوں کیلئے امن و امان کے ساتھ ساتھ عوام کی زندگی اور سلامتی کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی خاصی توجہ کا حامل ہے کہ عرصہ دراز سے عالمی سطح پر ایک بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی روز بروز فروغ پا رہی ہے حالانکہ اگر حقیقت حال کا جائزہ لیں تو بہت سے انسان دوست ہندوستانی حلقوں نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی بہ نسبت ہندوستان کے طول و عرض میں انتہا پسند ہندو تنظیمیں تیزی سے غلبہ حاصل کر رہی ہیں۔ اسی تناظر میں کچھ عرصہ پہلے ایک برطانوی نژاد بھارتی مصنف ’’آتش تاثیر‘‘(یاد رہے آتش تاثیرسابق گورنر پنجاب سلیمان تاثیر کے صاحبزادے ہیں اور ان کی والدہ تلوین سنگھ بھارت کی مشہور صحافی ہیں ) نے اپنی تحریر ’’ The Right Wing Attack on Indian Universities ‘‘ میں ’’سندیپ پانڈے‘‘ کا حوالہ دیتے لکھا تھا کہ ’’ مسٹر سنڈیپ پانڈے بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک اچھی شہرت کے حامل ٹیکنیکل ادارے سے وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے نکالے گئے، انھوں نے مجھے (مصنف کو) بتایا کہ بھارت کی اکثر یونیورسٹیوں کی مانند بنارس ہندو یونیورسٹی پر بھی RSS غلبہ پا چکی ہے اور یہ لوگ معمولی سے اختلاف رائے کو بھی برداشت نہیں کرتے‘خصوصاً جب سے مودی کی زیرقیادت 2014 مئی میں BJP کی سرکار قائم ہوئی تھی تب سے یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔
یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ RSS نے بھارت میں جیسے زندگی کے دوسرے شعبوں میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں ، اسی طرح تعلیم و تربیت کے شعبے کو خصوصی طور پر ٹارگٹ بنایا گیا ہے اور اپنے نظریات کے فروغ کیلئے اکھل بھارتی شکھشا سنستھان قائم کر رکھی ہے جسے مختصر طور پر ودیا بھارتی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جس کے تحت بھارت کے اندر ہزاروں کی تعداد میں تعلیمی ادارے چلائے جاتے ہیں۔ اس کا رجسٹرڈ دفتر یوپی کی راجدھانی لکھنئو میں جبکہ فنکشنل ہیڈ کوارٹر دہلی میں اور ذیلی مرکز ’’کورو کھشیتر‘‘ (ہریانہ) میں واقع ہے۔ 2003 تک اس کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کی تعداد 14000 تھی جہاں 17 لاکھ سے زائد طلبہ زیر تعلیم تھے جبکہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس کے زیر اہتمام چلنے والے تعلیمی اداروں کی تعداد 25000 ہو چکی ہے جہاں 30 لاکھ سے زائد طالب علم زیر تعلیم ہیں، ان میں بیسوں یونیورسٹیاں، ہزاروں کی تعداد میں کالجز، درجنوں ووکیشنل اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس شامل ہیں، انہی کے ذریعے ہندو انتہا پسند نظریات کو ہر ممکن ڈھنگ سے فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نصابی کتابوں میں اپنی مرضی کا نصاب شامل کرنے کیلئے نصاب ترتیب دینے والے سرکاری اداروں پر بھی گرفت مضبوط کر لی گئی ہے اور ان کتابوں میں ’’اکبرِ اعظم‘‘ جیسی شخصیت کو بھی غیر ملکی حملہ آور قرار دیا گیا ہے، حالانکہ کسے معلوم نہیں کہ اکبر نے تو ہندوئوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ’’ دین الہیٰ‘‘ کے نام سے ایک علیحدہ مذہب تک متعارف کروا دیا تھا۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ وہ نام نہاد مذہب اکبر کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ RSS نے بھارت کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے BJP کے تحت چلنے والی طلبہ تنظیم، اکھل بھارتی ودیارتھی پریشد (ABVP ) کے ذریعے اکثر طلبہ یونینز پر قبضہ کر رکھا ہے اور یوں ہندوستان کے طول و عرض میں اپنے من پسند نظریات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ امید کی جانی چاہیے عالمی سطح پر ان چیلنجز پر قابو پانے کیلئے موثر اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
٭…٭…٭
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024