زمانہ جاہلیت کی قومیں اس لیے تباہ و برباد ہوئیں کہ ان قوموں کے ہاں کلیہ و قانون کے تحت میرٹ سسٹم نہیں تھا۔ سرداروں کی اقربا پروری نے ریاستی نظام کا ستیاناس کر رکھا تھا۔ احتساب کا ادارہ یعنی پنچائیت، طاقتور طبقے کے سرکش بچوں کو بغیر تفتیش کے چھوڑ دیتا اور کمزوروں کے لیے شکنجہ سخت کر لیتا تھا۔ حکومتی عہدوں پر سفارش سے جاہل لوگ تعینات تھے۔ ٹھیک زمانہ جاہلیت کی طرز کی مخصوص اجارہ داری کا مظاہرہ ہم 21ویں صدی میں بھی کر سکتے ہیں۔ مؤقف ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت ہونے والا طریقہء امتحان کلی طور پر ایک مافیا کے قبضہ میں ہے۔ کمیشن دراصل اعلیٰ عہدیداروں، سیاسی شخصیات اور بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے افراد کے بیٹے، بیٹیوں اور رشتہ داروں کو افسر منتخب کر رہا ہے۔ امتحانی کاپیوں کی چیکنگ کے لیے من پسند افراد تعینات ہیں حتیٰ کہ کچھ نجی ادارے پیپرز کی تیاری کرواتے ہیں جن کا کمیشن میں بہت اثرورسوخ ہے اور مفادات کے بل بوتے پر کچھ نااہل اُمیدواروں کو کامیاب قرار دے دیا جاتا ہے ۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے میرٹ کی بحالی کے بلند و بانگ دعوے کیے جارہے ہیں۔ انہی دعوؤں کو لیکر حکومت اور حزبِ اختلاف ارکان کے مابین سرد جنگ چلی آرہی ہے۔ یاد رہے کہ وفاقی حکومت براہِ راست اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی، اسی بات کا فائدہ اٹھا کر سندھ سرکار نے از خود بادشاہت قائم کر رکھی ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑا کر محنتی، ذہین و فطین طلبہ کی حق تلفی بڑے عروج پر ہے۔ نومبر2020ء کے اوائل میں سندھ پبلک سروس کمیشن SPSC کے سکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ ایجوکیشن ورکس کے اسسٹنٹ سول انجینئر کے لیے ہونے والے امتحان میں مبینہ بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ سیاق و سباق کچھ یوں ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن سال 2018ء میں 45 اسسٹنٹ کی بھرتیوں کا اعلان کیا تھا، جس کے لیے تقریباً 4ہزار اُمیدواروں نے درخواستیں جمع کروائیں۔
SPSC نے تحریری امتحان 2019ء میں منعقد کیا اور اسی امتحان کا نتیجہ تقریباً 6ماہ کے طویل عرصے کے بعد ویب پر جاری کیا اورسندھ پبلک سروس کمیشن نے پاس ہونے والے 450 امیدواروں کی مارکس شیٹ ظاہر نہیں کی اور کامیاب اُمیدواروں کی صرف فہرست جاری کی۔ ملاحظہ ہو کہ 31دسمبر 2019ء کو یہ درخواست دائر کی گئی کہ نتائج کو بدعنوانیوں، من پسند امیدواروں کو نوازنے کے شواہد کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا جائے اور پبلک سروس کمیشن کے امتحانات 2018ء کے حتمی نتائج کو روکا جائے نیز امتحانات کا مکمل ریکارڈ طلب کیا جائے۔ یہ باتیں ابھی چل رہی تھیں کہ 23جنوری 2020ء کو بد عنوانی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دنیا کے 180ممالک میں بدعنوانی کے تاثر کے بارے میں سالانہ رپورٹ جاری کی اور اس میں کہا کہ ’’پاکستان میں بدعنوانی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔
قارئین! درخواست اور انٹرنیشنل رپورٹ کی جگ ہنسائی کے باوجود کمیشن نے جنوری، فروری2020ء میں انٹرویو کیے، تین ماہ تک انٹرویو جاری رہے۔ اب اس پر بھی امیدواروں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ کسی کی پرواہ کیے بغیر کمیشن نے 10ماہ بعد نتیجہ جاری کیا۔ جس میں کم نمبروں والے امیدوار غیر معمولی نمبر حاصل کر کے فاتح قرار پائے اور اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والے امیدواروں کو سوچی سمجھی سازش کے تحت انٹرویو میں فیل کر دیا۔ رہی سہی کسر کوٹہ سسٹم نے پوری کر دی جس میں محض 7فیصد افراد کی اہلیت کے علاوہ باقی ’’کوٹے ‘‘میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ امیدواروں کا ڈومیسائل صرف دیہی وشہری کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کامیاب امیدوار کا تعلق کس ضلع سے ہے؟ ہزاروں نااہل افراد کو بھرتی کرنے والے کمیشن کے قصوروار افسران کو بخش دیا گیا یہ جانتے ہوئے کہ اگلے تیس سال تک پاکستان کی حالت کیا ہوگی؟ اگر وفاقی حکومت کی اولین ترجیح میرٹ کی بحالی ہے تو خدارا اس طرف دھیان دیجئے کہ سندھ جو کہ پاکستان کا معاشی حب ہے یہاں وڈیروں اور بیوروکریٹس کے چنگل سے کمیشن کو نجات دلائی جائے۔ کمیشن میں فرض شناس اور اہل افراد کا تقرر کیا جائے تاکہ یہ ادارہ کرپشن فری ہو سکے۔
٭…٭…٭
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024