پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی، جرائم اور سماجی چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ ان حالات میں اگر کسی ادارے نے سب سے زیادہ فرنٹ لائن پر خدمات انجام دی ہیں تو وہ پولیس ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو نہ صرف قانون نافذ کرتا ہے بلکہ جان کا نذرانہ دے کر بھی وطن کا دفاع کرتا ہے۔
سندھ پولیس کی بات کریں تو یہ ادارہ اپنی تاریخی بہادری، فرض شناسی اور عوامی خدمت کے جذبے سے ہمیشہ سرشار رہا ہے۔ پولیس کے جوان اندھیری راتوں، گرم دنوں اور بارشوں میں بھی عوام کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں۔ ان کا حوصلہ، عزم اور قربانی کا جذبہ ہی ہے کہ آج ہم نسبتاً بہتر ماحول اور امن میں سانس لے رہے ہیں۔
ہر سال 4 اگست کو یومِ شہداء پولیس منایا جاتا ہے تاکہ ان بہادر جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان میں امن کی فضا قائم کی ہے۔ اس دن ملک بھر میں خصوصی تقریبات، قرآت خوانی، پھول چڑھانے اور شہداء کے ورثاء سے اظہارِ یکجہتی کے ذریعے ان کی قربانیوں کو یاد رکھا جاتا ہے۔
2025 کے دوران بھی ملک کے مختلف حصوں بشمول سندھ میں پولیس اہلکاروں نے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان قربانیوں نے ثابت کیا کہ پولیس صرف ایک ادارہ نہیں، بلکہ حفاظت، قربانی اور خدمت کا ایک نظریہ ہے۔
پولیس نے صرف قربانی ہی نہیں دی بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے بھی خود کو ہم آہنگ کیا ہے۔ سندھ پولیس نے تفتیش کے عمل کو روایتی طریقوں سے نکال کر جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ اب موبائل کیمرے، نگرانی کے آلات، کمپیوٹر رائز سسٹمز اور کال ریکارڈ کے تجزیاتی نظام کی مدد سے چند گھنٹوں میں شواہد اکٹھے کر لیے جاتے ہیں۔
پہلے جو تفتیشی عمل ہفتوں اور مہینوں لگتے تھے ، اب وہ عمل دنوں اور گھنٹوں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ جرائم کا ڈیجیٹل ریکارڈ، کال تفصیلات (سی ڈی آر)، آن لائن کیمرے، ڈرونز، اور موبائل ایپلیکیشنز کے ذریعے مجرموں کا پتہ لگانا آسان ہو گیا ہے۔ ملزمان چاہے ایک شہر سے دوسرے میں روپوش ہوں، ان کی تلاش اب جدید سسٹم کے ذریعے جلد ممکن ہو جاتی ہے۔
ائی جی سندھ کی کوششوں سے سندھ پولیس کے تھانے اب "ماڈرن تھانے" بن رہے ہیں جہاں آن لائن ایف آئی آر، خواتین اور بچوں کے لیے علیحدہ سہولیات، اور فوری رسپانس یونٹس موجود ہیں جہاں عوام اپنی شکایات ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور موبائل ایپ کے ذریعے درج کرا سکتے ہیں اور ان پر فوری کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
سندھ پولیس کی خدمات کا دائرہ صرف جرائم کی روک تھام تک محدود نہیں ہے بلکہ اس ادارے نے خواتین، بچوں، بزرگوں اور اقلیتوں کے لیے بھی خصوصی اقدامات کیے ہیں اب خواتین پروٹیکشن سیلز، بچوں کے تحفظ کے یونٹس، اور اقلیتوں سے متعلقہ شکایات کے فوری ازالے کے لیے الگ سیل قائم کیے گئے ہیں۔ یہ سب عمل اس بات کی دلیل ہے کہ پولیس ایک جامع، عوام دوست اور ذمہ دار ادارے میں تبدیل ہو رہی ہے۔
جرائم کی روک تھام میں بھی سندھ پولیس نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ہزاروں چھینی ہوئی گاڑیاں، موٹرسائیکلیں، موبائل فونز اور دیگر سامان برآمد کر کے اصل مالکان کو واپس کیا گیا ہے جس سے عوام میں پولیس کا اعتماد بحال ہوا ہے اسٹریٹ کرائم، چوری، ڈکیتی اور منشیات فروشی میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
پولیس اپنے شہداء کے ورثاء کو بھی تنہا نہیں چھوڑتی ان کے خاندانوں کو مالی امداد، تعلیم، ملازمت، رہائش اور علاج معالجہ کی سہولیات دی جاتی ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ افسران ذاتی طور پر ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں تاکہ وہ خود کو تنہا نہ محسوس کریں۔ شہداء کی یادگاریں، تقریبات اور ان کے بچوں کے لیے خصوصی تعلیمی وظائف بھی دیے جاتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں سندھ پولیس نے اپنی پیشہ ورانہ تربیت، قیادت، نظام اور خدمت کے جذبے میں جو ترقی کی ہے، وہ قابلِ تحسین ہے۔ اعلیٰ افسران، خصوصاً آئی جی سندھ کی قیادت میں ادارے میں نیا نظم و ضبط، شفافیت اور ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا ہے۔ جس کے باعث عوام کا اعتماد بحال ہو رہا ہے، اور پولیس کو ایک خدمت گزار ادارہ سمجھا جانے لگا ہے۔
یقیناً، سندھ پولیس صرف ایک محکمہ نہیں بلکہ ایک ایسی محافظ قوت ہے جو بہادری، قربانی، خدمت اور جدت کی علامت بن چکی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی خدمات کا اعتراف کریں، ان پر تنقید سے پہلے تعاون کریں، اور انہیں وہ مقام دیں جس کے وہ واقعی حقدار ہیں۔میں سمجھتا ہوں یوم شہدائے پولیس ہمیں یاد دلاتا ہے کہ امن خود بخود نہیں اتا ہے ان محافظوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہوتا ہے جو اپنی جانیں دے کر ہمیں پرسکون جینے دیتے ہیں سندھ پولیس ان محافظوں کی صف میں صف اول پر ہے جسے سلام اور خراج تحسین پیش کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے آپ کی پولیس ہے آئیے اسے اپنا سمجھیں۔