4 اپریل1979ءکو پاکستا ن کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی وہ ایک منتخب عوامی لیڈر تھے ان کو فخر ایشیاءاور مسلم دنیا کا لیڈر تسلیم کیا جاتا ہے‘ وہ مسلمان لیڈر تھے جو مسلم ممالک کا الگ بلاک بنانا چاہتے تھے۔ اسی لئے وہ بڑی طاقتوں کے دل میں کھٹکتے تھے جو ان کو ٹھکانے لگانا چاہتی تھیں اور 4 اپریل 1979ءکو ان کا یہ مقصد بخوبی پورا ہو گیا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پاکستان کی سیاسی جمہوری اور عوامی تاریخ میں ایک متنازعہ فیصلہ تھی اور اب تک ہے ان کی پھانسی کو عدالتی قتل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کو سزا سنانے والے عدالتی بنچ کے سات میں سے صرف تین ارکان سزائے موت کے حق میں تھے جبکہ چار اس کے خلاف تھے جبکہ پوری دنیا کی عدالتی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر موجود نہیں کہ اقلیتی فیصلے پر عملدرآمد کر کے کسی کو پھانسی دی گئی ہو۔
ایسا صرف ہمارے ملک میں ہوا کہ اکثریتی فیصلے کے برعکس ایک منتخب عوامی لیڈر کو تختہ¿ دار پر لٹکا دیا گیا۔ اس فیصلے سے دنیا بھر میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ اس ملک میں برس ہا برس کے بعد اگر جمہوری حکومت آئی بھی تو ملک کو پہلا متفقہ آئین دینے والے عظیم قائد کو ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے ذریعے پھانسی دے دی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو آکسفورڈ اور کیمبرج کے تعلیم یافتہ تھے۔ بین الاقوامی قانون کے ماہر تھے، کراچی یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون پڑھاتے رہے تھے۔ ایوب خاں کی کابینہ میں وزیر خاجہ تھے معاہدہ تاشقند کے بعد ان کے ایوب خاں سے اختلافات پیدا ہو گئے جس کی وجہ سے ایوب خاں سے علیٰحدہ ہوگئے اس کے بعد انہوں نے ایک نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی پاکستان پیپلزپارٹی‘ اس پارٹی کا منشور بہت ترقی پسندانہ تھا جو ملک کے غریب‘ مزدور‘ ہاری اور کچلے ہوئے طبقات کےلئے بڑی کشش رکھتا تھا جس کی بناءپر 1971ءکے پہلے عام انتخابات میں ایسے نہ ہونے والے واقعات بھی ہوئے کہ پیپلزپارٹی کے سائیکل سوار اُمیدوار نے مخالف پارٹی کے جاگیردار اور وڈیرے کو شکست دے دی جیسا کہ قصور میں ہوا چنانچہ اس الیکشن میں پیپلزپارٹی کو دوتہائی اکثریت مل گئی۔
یہ ان کی قائدانہ صلاحیتیں تھیں کہ انہوں نے تمام لیڈروں کو ساتھ ملا کر ملک کو پہلا متفقہ آئین تھا اس سے پہلے دنیا میں پاکستان کو ”سرزمینِ بے آئین “ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے نئی تعلیمی پالیسی بنائی، مزدوروں کے مفادات کا تفحظ کرنے کےلئے نئی لیبر پالیسی ان کا ایک عظیم کارنامہ ہے‘ انہی کے دور میں مزدوروں کی جدوجہد کو باقاعدہ طورپر تسلیم کرنے کےلئے یکم مئی کو لیبر ڈے ڈکلیئر کر کے عام تعطیل کا اعلان کیا گیا انہوں نے نئے میڈیکل کالج قائم کئے۔ جنوبی پنجاب میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور زکریا یونیورسٹی ملتان انہی کے کارہائے نمایاں ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جنوبی پنجاب میں ان دو یونیورسٹیوں کے قیام کے بعد سی ایس ایس میں جنوبی پنجاب کے کامیاب اُمیدواروں کا تناسب بڑھ گیا ہے۔
وہ ایسے جمہوری قائد تھے جنہوں نے عوام کو اپنے حقوق کا شعور دیا۔ غریب لوگوں اور ہاریوں کو وڈیروں اور جاگیرداروں کے اثر سے باہر نکالا، عام آدمی کو عزّتِ نفس کے ذائقے سے روشناس کروایا ملک کی تاریخ میں پہلی بار بے گھر غریب افراد کےلئے پانچ مرلہ رہائشی سکیم شروع کی جو لوگ دیہات میں کسی زمیندار کے احاطے میں رہتے تھے ان کو اپنا گھر ملنے پر جینے کا ایک نیا حوصلہ ملا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار کاشتکاری کے شعبے میں بیج کی فراہمی مالک زمین کی ذمہ داری قرار دیا نا کہ مزارع کی۔ صنعتی مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کےلئے ”قومی صنعتی تعلقات کا کمشن“ قائم کیا، مزدور کی کم از کم تنخواہ کا تعین کیا۔ غریب اور سفید پوش طبقے کو ریلیف دینے کےلئے یوٹیلٹی سٹورز قائم کئے گئے ملک کے غریب اور نادار افراد کو سستی اور گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرنے کےلئے پیپلز اوپن یونیورسٹی قائم کی جو دنیا میں دوسری اور ایشیاءکی اپنی نوعیت کی پہلی یونیورسٹی ہے جس کا نام بعد میں جنرل ضیاءالحق نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی رکھ دیا تھا ،اس یونیورسٹی سے اب تک لاکھوں غریب طالب علم گھر بیٹھے تعلیم حاصل کر کے اپنا روزگار کما رہے ہیں۔
انہوں نے لاہور میں 1974ءمیں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کروا کے اپنے آپ کو تاریخ میں امر کروا لیا۔ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کےلئے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو ملک میں لیکر آئے جب بھارت نے 1974ءمیں ایٹمی دھماکہ کیا تو انہوں نے کہا تھا کہ” ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔“ فرانس سے ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ کیا۔1974ءمیں ان کا تاریخ ساز کارنامہ مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی شناختی کارڈ کا آغاز کیا۔ غرض ان کے جدید اور فلاحی اقدامات کا سلسلہ بہت طویل ہے جس کا اس کام میں احاطہ کرنا مشکل ہے۔
لیکن ان تمام تر فلاحی اقدامات کے باوجود ان کی تمام پالیسیوں کا دفاع کرنا ممکن نہیں خصوصاً ان کی قومیانے کی پالیسی نے ملک کو ناقابل تلاافی نقصان پہنچایا صنعتوں کو قومی تحویل میں لیکر غیر ہُنرمند افراد کے حوالے کر دیا گیا جس سے وہ خسارے میں چلی گئیں۔ تعلیمی ادارے قومیا لئے گئے ایف سی کالج لاہور جیسے ادارے کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ ائیر لائن کو قومی تحویل میں لیکر پی آئی اے بنا دیا گیا جس سے وہ مسلسل خسارے میں جا رہی ہے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال شخص ہونے کے باوجود فیوڈل لارڈ ہونے کی وجہ سے طبعاً آمرانہ مزاج کے مالک تھے اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے تھے جو کہ جمہوریت کا حسن ہے اور ایک بنیادی خوبی بھی،
لیکن مجموعی طورپر جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ شخص ہمیں آسمان کی بلندیوں پر نظر آتا ہے براعظم ایشیاءمیں ابھی تک ان کے پائے کا لیڈر قائداعظم کے بعد پیدا نہیں ہوا وہ ایک دوراندیش سیاسی لیڈر تھے۔ چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا قیام ان کا سنہری کارنامہ ہے جس کے ثمرات آج کی حکومتیں اپنے کھاتے میں ڈال رہی ہیں عرب ملکوں سے دوستانہ تعلقات کا قیام بھی ان کا کارنامہ ہے جس کی وجہ سے بہت بھاری تعداد میں افرادی قوت کو ان ملکوں میں روزگار کے مواقع میّسر آئے اگر وہ زندہ رہتے تو آج پاکستان ایشیاءکا طاقتور ترین ملک بن چکا ہوتا
لیکن رے بساآرزوکہ خاک شدہ
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024