فرزند اقبالؒ - ڈاکٹر جاوید اقبال

شاعر مشرق ، مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبالؒ1931ء میں جب گول میز کانفرنس میں شمولیت کیلئے لندن گئے تو انکے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال کی عمر سات سال تھی، انہوں نے علامہ محمد اقبالؒ کو ایک خط لکھا اور یہ فرمائش کی کہ جب وہ وطن واپس آئیں تو ان کیلئے ایک گراموفون لیتے آئے اسکے جواب میں علامہ محمد اقبالؒ نے ایک نظم لکھ کر بھیجی …؎
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
دراصل یہ صرف جاوید اقبال کیلئے نہیں بلکہ پوری نئی نسل کیلئے علامہ محمد اقبالؒ کا ایک پیغام تھا۔
علامہ محمد اقبالؒ آرزو مند تھے کہ ان کا فرزندِ ارجمند خودی کو زادِ راہ بنا کر غریبی میں نام پیدا کرے‘ انکے ثمر سے مئے لالہ فام کشید کرے۔ خدائے بزرگ و برتر نے انکی آرزوئوں کو عملی صورت عطا فرمادی اور ڈاکٹر جاوید اقبال کو اس قدر فراست سے نوازا کہ ان سے ملاقات کے بعد لوگ خود کو علمی لحاظ سے پہلے کی نسبت زیادہ بلند مقام پر محسوس کرتے تھے۔ فرزندِ اقبالؒ ہونے کی تکریم اپنی جگہ‘ انہوں نے مسلسل محنت سے دنیائے علم و تحقیق میں خود اپنے لئے بھی ایک منفرد مقام حاصل کرلیا تھا۔ انکی سوچ روایت اور جدت کا حسین امتزاج اور فکر و عمل کے نئے دریچے وا کرتی تھی۔ مخاطب کی ذہنی سطح کیمطابق افکارِ اقبالؒ کے دقیق پہلوئوں کی تشریح پر انہیں قدرتِ کاملہ حاصل تھی۔ انہیں اس بات پر بڑا ناز تھا کہ ان کے عظیم المرتبت والد نے برصغیر میں مسلمانوں کیلئے ایک الگ مملکت کے قیام کا تصور پیش کیا اور اسکے حصول کی خاطر میرِ کارواں قائداعظم محمد علی جناحؒ کا انتخاب بھی کیا۔
بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ ڈاکٹر جاوید اقبال کا تعارف صرف قانون دان‘ چیف جسٹس اور ڈرامہ نگار کا ہی نہیں بلکہ آپ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن بھی تھے۔ جاوید منزل کے درودیوار آج بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ انہوں نے فکری محاذ پر تحریک پاکستان کیلئے خدمات سرانجام دیں۔ آپ یہاں مختلف موضوعات پر ہم خیال دوستوں کے ساتھ مشاورت کے بعد تحریک کے جلسے جلوسوں کے متعلق حکمت عملی تیار کرتے۔ آپ نے تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ کے مختلف جلسوں میں شرکت کی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس منعقدہ 23مارچ 1940ء میں بھی آپ شریک تھے۔ 
قیامِ پاکستان کے بعد قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آپ وکالت کے پیشہ سے منسلک ہوگئے اور وطن عزیز پاکستان کی خدمت کیلئے نہ صرف فکری اور نظریاتی بلکہ عملی طور پر اپنے آپ کو وقف کردیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک ماہر قانون دان کے طور پر اپنا سکہ منوایا۔ 1971ء میں لاہور ہائیکورٹ کے جج اور 1982ء میں چیف جسٹس کے اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔ 1986ء سے 1989ء تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج رہے بعدازاں آپ سینٹ آف پاکستان کے رکن بھی رہے۔ پاکستان کے متعدد مقتدر اداروں اور جامعات کے کلیدی عہدوں پر فائض رہنے کے علاوہ آپ کو مختلف بین الاقوامی اعزازت بھی دیئے گئے‘ 1989ء میں اردن کی رائل اکیڈمی نے آپ کو تاحیات رکنیت دی۔ 1990ء میں ترکی کی سجلوق یونیورسٹی نے اسلامی ادب اور سائنس کے ڈاکٹریٹ ڈگری دی۔ اسلامی فکر کے موضوع پر آپ کے متعدد مقالات انگریزی اور اُردو اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں آپ نے اس موضوع پر بون‘ پیرس‘ استنبول‘ سپین‘ سڈنی‘ عمان اور میکسیکو اور بے شمار دیگر ممالک میں لیکچر بھی دیئے۔ 1960ئ‘1962ء اور 1977ء میں آپ نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی امریکہ اور کینیڈا کی مختلف یونیورسٹیوں میں پاکستان کے بارے میں لیکچر دیئے آپ نے دنیا کے تمام اہم ممالک کی سیاحت بھی کی۔ آپکے اہم تصنیفات مئے لالہ فام‘ نظریۂ پاکستان‘ میراث قائداعظمؒ افکار پریشان‘ حیات اقبال‘ زندہ رود اور گریباں چاک شامل ہیں۔
ڈاکٹر جاوید اقبال اس مملکت خداداد کی نظریاتی اساس کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ اپنی کتاب ’’آئیڈیالوجی آف پاکستان‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’یہ بات واضح ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اسکی بقاء تب ہی ممکن ہے اگر اس کی نظریاتی سالمیت کو برقرار رکھا جائے۔ یہ نظریہ ہی ہمارے تصور قومیت کی بنیاد ہے۔ یہ نظریۂ ہماری قومی‘ سیاسی‘ اقتصادی‘ ثقافتی‘ مذہبی واخلاقی اقدار اور اصولوں نیز اُنکے اظہار کا سرچشمہ ہے۔‘‘ انہیں بجا طور پر احساس تھا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستانی قوم کو نظریاتی انحطاط کا شکار بنایا جارہا ہے اور کچھ مفاد پرست عناصر پاکستان کے اساسی نظریات کو اپنی پسندوناپسند کے سانچوں میں ڈھالنے کی جسارت کررہے ہیں‘ لہٰذا وہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں نظریۂ پاکستان کو ریاست پاکستان کی بقاء کا ضامن قرار دیتے تھے‘ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے افکار و نظریات کی روشنی میں پاکستان کو ایک جدید اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کیلئے جدوجہد کی ترغیب دیتے تھے۔جمہوریت کی بحالی کی خاطر مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے جب فوجی آمر جنرل محمد ایوب خان کے مقابل صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے مادرِ ملت کا بھرپور ساتھ دیا اور انکے ہمراہ وطن عزیز کے مختلف علاقوں کا طویل سفر کیا۔ڈاکٹر جاوید اقبال سولہ برس تک تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین کے منصب پر فائز رہے اور اس دوران تحریک پاکستان کے کارکنوں کی فلاح و بہبود کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کے انتہائی معزز اور متحرک رکن کی حیثیت سے بھی وہ مملکت خداداد کے اساسی نظریہ کی ترویج کیلئے کوشاں رہے۔ انکے عزیز دوست محترم ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم انہیں ’’مرشد زادہ‘‘ قرار دیتے تھے اور ان کی بے انتہا تعظیم کرتے تھے۔ -3اکتوبر 2015ء کو ڈاکٹر جاوید اقبال دنیا سے رخصت ہوئے۔ دعا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر ان کے درجات کو بلند تر فرمائے اور ہمیں انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے فکرِ اقبالؒ کو فروغ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

ای پیپر دی نیشن

شرجیل اعوان اور قومی خدمت 

 محبِ وطن سیاسی ورکر وہ فرد ہے جو اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کی سیاست کا مقصد ...