سُلطان محمود غزنوی کے پاس ایک شخص چکور لایا جسکا ایک پائوں نہیں تھا ۔ جب سُلطان نے اس چکور کی قیمت پوچھی تو اس شخص نے اس قیمت بہت مہنگی بتائی ۔ سُلطان نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ اس کا ایک پائوں بھی نہیں ہے پھر بھی اسکی قیمت اتنی زیادہ کیوں بتا رہے ہو؟ تو وہ شخص بولا کہ جب میں چکوروں کا شکار کرنے جاتا ہوں تو اس چکور کو بھی ساتھ لے جاتا ہوں وہاں جال کے ساتھ اسے باندھ دیتا ہوں یہ بہت عجیب سی آوازیں نکالتا ہے اور دوسری چکوروں کو بلاتا ہے اس کی آواز پر چکوریں آتی ہیں اور میں ان کو پکڑ لیتا ہوں۔ سُلطان محمود غزنوی نے اس چکور کی قیمت اس شخص کو دے کر چکور کو ذبح کر دیا اس شخص نے پوچھا کہ اتنی قیمت دینے کے باوجود آپ نے اس چکور کو ذبح کیوں کیا ؟ تو سُلطان نے اس پر تاریخی الفاظ کہے کہ :۔
"جو دوسروں کی دلالی کیلئے اپنوں سے غداری کرے اس کا یہی انجام ہوتا ہے"
بچپن میں کپڑے میلے اور دل صاف ہوتے تھے اب بڑے ہو کر کپڑے صاف اور دل میلے ہو گئے ہیں۔ مشکل وقت ایک ایسا آئینہ ہے جس میں دوستوں اور دشمنوں کی شکلیں صحیح نظر آتی ہیں۔ آج ایک دوسرے کو چور ڈاکو، علی بابا چالیس چور، پیٹ پھاڑ کر ملکی دولت نکالنے کے جھوٹے دعویدار اکٹھے ہو کر پاکستان کے دشمنوں کی زبان بول رہے ہیں اور حال ہی میں نواز شریف کا بیانیہ بذریعہ ایاز صادق دنیا کے سامنے آیا ہے ۔جو اہلیانِ وطن کو میر جعفر اور میر صادق کی یاد دلاتاہے۔ اسے معلوم نہیں کہ یہ بیان میجر عزیز بھٹی شہید سے لیکر لیفٹننٹ ناصر خالد شہید کی روحوں کو تڑپا رہا ہے جو ناصر شہید باپ کی شہادت کے بعد آج ماں کا یتیم بیٹا بھی وزیرستان میں شہادت کے درجے پر پہنچ کر ماں کی آنکھوں میں آنسو چھوڑ گیا۔ شاید ملکِ پاکستان پر حکمرانی کرنے والوں کو آج اسرائیل انڈیا کے ساتھ دوسرے ملکوں کی آشیر باد حاصل ہے ۔مولانا فضل الرحمن کے بھائی عطا ء الرحمن کا کہنا کہ افغانستان انڈیا میں دہشت گردی کے نشان پاکستان کی طرف آتے ہیں ، انتہائی باعثِ شرم ہے ۔ انہیں بات کرنے سے پہلے آپریشن ضربِ عضب کے بعد آپریشن رد الفساد مکمل ہونے پر سات ہزار سے زیادہ پاک فوج کی شہادتیں کیوں یاد نہیں آئیں ۔ پاک فوج اور اداروں پر بات کرنے سے پہلے ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ سپاہی کے تو مقصد ہی دو ہوتے ہیں "غازی"یا "شہید"۔
پاکستان پر حملے کی بات پر آپ بے فکر ہو جائیں۔ ایٹمی پاکستان پر حملہ کسی کا باپ بھی نہیں کر سکتا ۔ اب تو بالکل لگتا ہے کہ پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ آستین کے سانپوں سے ہے ۔ ویسے کمال کی فطرت ہے جلسوں میںآنکھیں دکھاتے ہو رات کے اندھیرے میں پائوں پڑتے ہو۔ کبھی خواجہ آصف کبھی زبیر کو منتیں کرنے بھجواتے ہو ۔ کاش جنرل ضیاء الحق شہید آپ پر احسان کرنے سے پہلے آپکی نسلیں دیکھ لیتے ۔اقتدار کے پجاریو ہوسِ اقتدار میں اداروں پر برستے ہوئے ذرا خیال نہیں آتا ۔ کوئی شرم و حیا اور غیرت ہوتی ہے۔ پاکستان اور اسکے اداروں کو مطعون کرنیوالوں پر "لکھ دی لعنت "۔
بہت سے مولوی آج پاکستان کے ساتھ صرف ہیں ہی اقتدار کیلئے۔یہ شاید بھول گئے ہیں کہ سٹیٹ کو بلیک میل نہیں کیا جاسکتا۔اس وقت سٹیٹ کے Reaction کا وقت ہے ورنہ یہ انسان نما بھیڑیے پاکستان کو بڑا نقصان پہنچانے کی کوشش کرینگے ۔انہوں نے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر پاکستان کی حفاظت کرنے والوں کی توہین کر کے مسلمانوں کے قاتل مودی اوراسکے ساتھیوں کو جشن منانے کا موقع فراہم کر کے شہداء کے لہو سے مذاق کیا ہے۔ذرا ان سے کوئی پوچھے کہ انکے بزرگوں نے پاکستان کیلئے کیا رول اداکیا تھا جو یہ پاکستان کے مامے بنے ہوئے ہیں ۔ اسمبلی کی ٹکٹیں بیچ کر پاکستان کی پاک اسمبلیوں میں کرپٹ ، کریمنل اور لینڈ مافیاز کو بھیجنے والوں سے زیاد ہ ووٹ کی توہین کس نے کی ہے ؟ (روندے ووٹ نو عزت دیونو، شرم نئیں آندی)
آج اغیار کے اشاروں پر پاکستان توڑنے اور سی پیک کو بند کرنے کے ساتھ پاکستانی فوج پر تیر چلا کر احسان فراموشی کر رہے ہیں ۔ میرا ایمان ہے کہ :
"انسان کے قاتل سے پہلے احسان کے قاتل کو پھانسی چڑھا دینا چاہیے"
پاکستانی قوم کے دل پاک فوج کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔ اب P.T.Iاخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرے اور ان کے ملک دشمن ایجنڈے کو پاکستان کے ہر گھر تک پہنچائیں تاکہ شیر اور تیر کی آوازیں بند ہو جائیں اور ان کے چہرے قوم کے سامنے آئیں ۔پاکستانی اداروں کو نقصان پہنچانے والے قومی مجرم ہیں ان سے رعایت مجرمانہ غفلت ہوگی۔پاکستان کی وجہ سے آج دو ۔ دو آنے کی ویسکوٹیں پہن کر کمینے اس گلشن کو آگ لگانے کیلئے تیار ہیں ۔ مئیو قوم کا ایک محاورہ ہے :۔
کمی یار اور کُند ہتھیار کبھی نہ اترے پار
وزیر اعظم ہر صورت مہنگائی ختم کریں قوم ان سے خود نمٹ لے گی۔ عمران خان صاحب یاد رکھیں غربت انسان کو اپنے ہی شہر میں اجنبی بنا دیتی ہے ۔ یاد رکھو شاید کمزور سسٹم لیڈروں کو سوٹ کرتا ہے جس دن حکومت کی رِٹ بحال ہو گئی ان دن سب کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔ اپنی مرضی سے اپنی ضمانت واپس کر کے نیب میں بیٹھے لیڈر کس موقع کی تلاش میں ہیں۔ قوم جانتی ہے ۔
پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت سے پہلے پاکستان کی قوم کی حفاظت ضرور ی ہے ۔ کیا اس نظام میں پاکستانی قوم محفوظ ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے ؟ پاکستانی قوم اپنے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے جب ضرورت پڑی تو آپ دیکھیں گے کہ 1965ء میں کلہاڑیاں لے کر بارڈر پر جانے والے پاکستانی اب کلاشنکوفوں کے ساتھ پاک فوج کے ساتھ ہوں گے۔
آج بھی میڈم نور جہاں کی آواز جگہ جگہ سے آرہی ہے : ’’اے پتر ہٹاں تے نئی وِکدے ‘‘
اور ضرورت پڑنے پر شوکت علی کی آواز گونجے گی: ’’ساتھیو مجاہدو جاگ اُٹھا ہے سارا وطن ‘‘
انشاء اللہ محب وطن پاکستانیوں کی للکار کے سامنے دشمنانِ وطن اور غدارِ وطن نہیں ٹھہر سکیں گے ۔ ویسے ہم سب انشاء اللہ غزوہ ہند میں ضرور شامل ہونگے اوردہلی کے لال قلعے پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا کے رہیں گے۔ آج ہر پاکستانی کے دل کی آوازہے کہ :۔
ساتھیو مجاہدو جاگ اُٹھا ہے سارا وطن
آج مظلوم ظالم سے ٹکرائیں گے
اپنی طاقت زمانے سے منوائیں گے
سامراجی خدائوں پہ چھا جائیں گے
ساتھ ہیں مردو زَن سر پہ باندھے کفن
ساتھیو مجاہدو جاگ اُٹھا ہے سارا وطن
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024