3 جون 1947ء.... ایک تاریخ ساز دن
3 جون 1947ء.... ایک تاریخ ساز دن
انور بشیر
3 جون 1947ءملت اسلامیہ کی تاریخ میں بے حد اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔ اس تاریخ ساز دن ہندوستان کی تقسیم اور دنیا میں ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کا اعلان ہوا۔ اس سے پہلے ہندوستان کا آئینی مسئلہ حل کرنے کے لیے حکومت ہند نے 1945ءتک جتنی بھی کوششیں کیں وہ ناکام رہیں۔ جولائی 1945ءکے آخر میں برطانیہ میں نئی لیبر حکومت برسراقتدار آئی جس کے وزیراعظم لارڈ ایٹلی تھے۔ لیبر حکومت نے یہ مسئلہ براہِ راست اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس زمانے میں ہندوستان کے انگریز وائسرے لارڈ ویول تھے۔ برطانیہ کی لیبر حکومت نے 1946ءکے شروع میں تین وزراءپر مشتمل ایک مشن ہندوستان بھیجا تاکہ ہندوستانی لیڈروں سے مل کر کوئی قابل قبول آئینی فارمولا وضع کیا جا سکے۔ 15 مارچ 1946ءکو وزیراعظم لارڈ ایٹلی نے برطانوی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں کہا ”میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایک ایسے ملک کے بارے میں اظہارِ خیال کر رہا ہوں جس میں نسلوں، مذاہب اور زبانوں کے کئی مجموعے ہیں۔ اس کے علاوہ جو مشکلات پیدا ہو رہی ہیں ان سے بھی واقف ہوں لیکن ان مشکلات پر صرف ہندوستان کے لوگ ہی قابو پا سکتے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کا ہمیں پورا خیال ہے مگر کسی اقلیت کو اکثریت کی راہ میں ویٹو کا روڑا اٹکانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔“
برطانوی وزیراعظم لارڈ ایٹلی کی اس تقریر کے جواب میں قائداعظم محمد علی جناح نے 17 مارچ 1946ءکو ایک بیان میں کہا ”یہاں ویٹو برتنے یا اکثریت کی راہ روکنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر ایک مثال صادق آتی ہے؛ ایک مکڑی نے مکھی کو اپنے محل میں آنے کی دعوت دی، اب اگر مکھی انکار کرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ویٹو استعمال کیا جا رہا ہے لیکن مکھی ضدی ہے۔“ یہ کابینہ مشن تھا جس کے ارکان وزیر امور ہند لارڈ پیتھک، لارنس سر سٹیفورڈ کریس اور دی الیگزینڈر تھے۔ یہ مشن 24 مارچ 1946ءکو ہندوستان پہنچا اور مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں سے تبادلہ خیال کیا۔ پھر شملہ کی دوسری کانفرنس بلائی گئی جس میں گفت و شنید کے لیے کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے چار چار نمائندے ایک کمیٹی کی شکل میں شامل ہوئے۔
22 مارچ 1947ءکو متحدہ ہندوستان کا آخری وائسرائے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن ہندوستان آ گیا اور 23 مارچ کو سابق وائسرائے ہند لارڈ ویول لندن روانہ ہو گیا۔ اس تبدیلی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کانگریس کی ریشہ دوانیوں کے سبب لارڈ ویول کو برخاست کیا گیا کیونکہ کانگریس کی نظر میں لارڈ ویول کا قصور یہ تھا کہ اس نے مسلم لیگ کو عبوری حکومت میں کانگریس کے برابر جگہ دی۔
کابینہ مشن نے 14 مئی کو ایک فارمولے کی طرف پیش رفت کرتے ہوئے اعلان کیا جس کے اہم نکات یہ ہیں۔
.1ہندوستان کی ایک وفاقی حکومت ہو جو برطانی ہند اور ریاستوں پر مشتمل ہو۔ دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے محکمے مرکز کے پاس ہوں اور اس کو ٹیکس لگانے کا اختیار بھی ہو۔
.2مذہبی بنیادوں پر صوبوں کے تین گروپ بنائے گئے۔ پہلے گروپ میں ہندو اکثریت کے صوبے یوپی، سی پی، مدراس، بمبئی، بہار اور اڑیسہ شامل تھے۔ دوسرا گروپ مسلم اکثریب کے صوبوں پر مشمل تھا جس میں پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان شامل تھے۔ تیسرے گروپ میں مشرقی مسلم صوبے بنگال اور آسام شامل تھے۔
.3صوبے اور ریاستیں وفاق کی بنیادی اکائیاں ہوں گی۔ چند طے شدہ محکموں کے علاوہ باقی تمام محکمے صوبوں کی تحویل میں ہوں گے۔ ریاستیں جو اختیارات حکومت کو سونپ دیں گی ان کے علاوہ باقی تمام اختیارات اپنے پاس رکھیں گی۔
.4صوبوں کا ہر گروپ اپنے صوبوں کے لیے آئین وضع کرے گا اور یہ بھی طے کرے گا کہ نئے انتخابات کے بعد کوئی بھی صوبہ اپنی اسمبلی کی اکثریت کی رائے سے اپنے گروپ میں سے الگ ہو سکے گا۔
.5دستور ساز اسمبلی میں نشستوں کی تقسیم اس طرح کی گئی: کل ارکان 385، مسلمانوں کی نشستیں 78، سکھوں کے لیے 4 اور دیسی ریاستوں کے لیے 93 نشستیں۔
.6دس سال بعد ہر صوبہ اسمبلی کی اکثریت کی خواہش پر اپنی حیثیت کو تبدیل کرنے کا مجاز ہو گا۔
.7دس سال کے لیے مرکز میں ایک عبوری حکومت ہو گی جس میں کانگریس کے علاوہ کانگریس کے نامزد پانچ ہندو اچھوتوں سمیت مسلم لیگ کو 5، پارسیوں کو ایک، سکھوں کو ایک اور عیسائیوں کو ایک نشت دی جانا تھی۔
.8ہر پارٹی کے لیے لازم ہے کہ اس فارمولے کو بحیثیت مجموعی قبول یا رد کر دے، جو پارٹی اس کو جزوی یا کلی طور پر مسترد کر دے گی اس کو حکومت میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
ابتداً میں مسلم لیگ نے اس فارمولے کو مشروط طور پر قبول کیا تھا مگر بعد میں مسترد کر دیا۔ اس فارمولے کی روشنی میں ہندوستان میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھے جس پر مسلم لیگ نے کابینہ مشن کے فارمولے کی منظوری کا فیصلہ واپس لے لیا اور 16 اگست کو مسلم لیگ نے ”یوم راست اقدام“ منایا تاہم بعد میں قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ مذاکرات کے بعد مسلم لیگ کو بھی عبوری وزارت میں شامل کر لیا گیا۔ 26 اکتوبر کو مسلم لیگ کابینہ میں شامل ہو گئی۔ مسلم لیگ کے وزراءمیں لیاقت علی خان، آئی آئی چندریگر، سردار عبدالرب نشتر اور جوگندر ناتھ شامل تھے۔ لیاقت علی خان نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے اپنا مشہور بجٹ پیش کیا تھا جس کو ”غریب آدمی کا بجٹ“ کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں سی لارڈ ویول کی جگہ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہو چکے تھے۔
لارڈ ماﺅنٹ بیٹن مئی 1947ءمیں برطانیہ گئے اور وزیراعظم لارڈ ایٹلی اور دوسرے برطانوی لیڈروں سے بات چیت کے بعد واپس ہندوستان آکر طویل مذاکرات کیے اور ہندوستان کے اہم لیڈروں کی ایک اہم کانفرنس بلائی۔ اس کانفرنس کے شرکاءمیں پنڈت جواہر لال نہرو، قائداعظم محمد علی جناح، سردار پٹیل، اچاریہ کرپلانی، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر اور سردار بلدیو سنگھ قابل ذکر ہیں۔ کسی کانفرنس میں ہندوستان کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا گیا۔ اس منصوبے کا اعلان 3 جون 1947ءکو کیا گیا۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں:
.1برصغیر میں دو الگ الگ مملکتیں قائم کر دی جائیں جو شروع میں نوآبادیاتی حیثیت کی حامل ہوں گی۔
.2پنجاب اور بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا اور حدبندی کمیشن بھی مقرر کیے جائیں گے۔
.3سندھ اور آسام کے مستقبل کا فیصلہ ان صوبوں کی اسمبلیاں کریں گی۔
.4صوبہ سرحد اور آسام کے ضلع میں استصواب رائے کرایا جائے گا جس کے بعد یہ فیصلہ ہو گا کہ وہاں کے باشندے کس ملک میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
.5ریاستوں کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ہر دو مملکتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں۔
.6برصغیر کی مسلح افواج اور مشترکہ اثاثوں کی تقسیم کر دی جائے گی۔
قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ اور کانگریس نے تقسیم ہند کے اس منصوبے کو قبول کر لیا جس کا اعلان آل انڈیا ریڈیو سے نشری تقریروں کے ذریعے کیا گیا۔ اس طرح پاکستان کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور 14 اگست 1947ءکو اس کا وجود بھی عمل میں آ گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ انتہائی اہم ترین دن ہے جسے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جانا چاہئے۔
٭٭٭