منصفانہ انتخابات کیلئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے تحفظات کا ازالہ ضروری ہے
الیکشن کمیشن کا انتخابات کی شفافیت پر اثرانداز ہونیوالے بعض واقعات کا نوٹس اور انتخابی فضا میں تشدد کا رحجان
الیکشن کمیشن نے آئندہ انتخابات کی شفافیت پر اثرانداز ہونیوالے کچھ واقعات کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے نیب سے رابطہ کرلیا ہے اور بعض امیدواروں پر تشدد کے واقعات کے بارے میں بھی چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس پنجاب سے جواب طلب کرلیا ہے۔ اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن کے ذرائع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ نیب کے بعض متنازع اقدامات کا نوٹس لیا گیا ہے جن میں ایک فوجی افسر کی جانب سے قصور میں کانفرنس میٹنگ کیلئے ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کو ہدایات دینا اور ملتان اور نارووال میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو ہراساں کرنا اور انکی پٹائی کے واقعات شامل ہیں۔ اس معاملہ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جی ایچ کیو کو بھی آگاہ کیا گیا۔ ملتان اور نارووال کے واقعات کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب حسن عسکری کے نام ایک مراسلہ میں اس امر کی یاد دہانی کرائی ہے کہ امیدواروں کو ہراساں کرنے اور دھمکیاں دینے کی اطلاعات ہیں اس لئے ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے مو¿ثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ امیدواروں کو سکیورٹی فراہم کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے جو احسن طریقہ سے سرانجام دی جاتی نظر نہیں آرہی۔ اس حوالے سے ملتان اور نارووال کے امیدواروں کے ساتھ پیش آنیوالے واقعات افسوسناک ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام صاف شفاف اور پرامن انتخابات کیلئے ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس سلسلہ میں نگران حکومت‘ انتظامیہ اور پولیس سے توقع ظاہر کی وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرینگے۔ الیکشن کمیشن کے مراسلہ کی نقول سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پی کے کے نگران وزرائے اعلیٰ اور چیف سیکرٹریوں کو بھی ارسال کی گئی ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آزادانہ‘ منصفانہ اور پرامن ماحول میں شفافیت کے ساتھ انتخابات کے اہتمام کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے جس نے اپنی یہ ذمہ داری نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور انکے ماتحت انتظامی مشینری اور پولیس کے ذریعے بروئے کار لانی ہے جبکہ پولنگ والے دن پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے الیکشن کمیشن نے پاک فوج کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں جس کیلئے پاک فوج کی جانب سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ جوانوں کی خدمات الیکشن کمیشن کے سپرد کی جاچکی ہیں۔ اس تناظر میں ہر انتخابی امیدوار کو‘ اس کا تعلق چاہے جس بھی جماعت سے ہو یا وہ آزاد حیثیت میں انتخاب لڑرہا ہو‘ نگران حکومتوں کی معاونت سے الیکشن کمیشن نے ہی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ تاہم انتخابی مہم کے آغاز ہی میں جس انداز میں مختلف امیدواروں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں کیخلاف انکے انتخابی حلقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا وہ کسی خاص مقصد کی تکمیل والی سوچی سمجھی منصوبہ بندی نظر آتی تھی۔ اسکے علاوہ چیئرمین نیب کے تواتر کے ساتھ لاہور کے دورے کے مواقع پر جس انداز میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار قمرالاسلام کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور دوسرے مختلف امیدواروں کیخلاف نیب کے مقدمات پر کارروائی کا عندیہ دیا گیا وہ انتخابی عمل میں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کیلئے حوصلہ شکن صورتحال پیدا کرنے کے مترادف تھا چنانچہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف اور صدر میاں شہبازشریف کو انتخابی عمل اور انتخابات کی شفافیت پر تحفظات کا اظہار کرنا پڑا۔ اسی دوران ملتان اور نارووال میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو اٹھا کر لے جانے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات بھی رونما ہوئے جس کے بارے میں ملتان کے رانا اقبال سراج نے ایک ایجنسی پر اپنے اغواءاور تشدد کا الزام عائد کیا۔ اگرچہ بعدازاں وہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئے تاہم امیدواروں پر تشدد کے واقعات تو بہرصورت سامنے آئے جبکہ اب مخصوص امیدواروں کے انتخابی حلقوں میں انکے گھیراﺅ اور مخالفانہ نعرے لگانے کے واقعات تشدد میں تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں جس میں امیدواروں ہی نہیں‘ پارٹی قائدین کو بھی ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز لیاری کراچی میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری‘ جو پیپلزپارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ بھی لے رہے ہیں جس طرح مشتعل مظاہرین کے پتھراﺅ کی زد میں آئے اور اس پتھراﺅ سے انکے متعدد کارکن اور سپورٹرز زخمی بھی ہوئے وہ اس حلقہ کے ووٹروں کے ردعمل سے زیادہ کوئی خانہ ساز حکمت عملی نظر آتی ہے جس کا مقصد ممکنہ طور پر انتخابی مہم میں تشدد کا عنصر شامل کرکے امن و امان کی صورتحال خراب کرنا بھی ہو سکتا ہے اس لئے یہ صورتحال الیکشن کمیشن سے سخت نوٹس لینے کی ہی متقاضی ہے کیونکہ امیدواروں کیلئے عدم تحفظ کی فضا میں انتخابات کی شفافیت پر حرف آئیگا تو اسکی ذمہ داری الیکشن کمیشن اور نگران سیٹ اپ پر ہی عائد ہوگی۔
اگرچہ نگران حکمرانوں کے علاوہ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضاخان کی جانب سے بھی آزادانہ‘ غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات کا یقین دلایا جارہا ہے جبکہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نیب کی کارروائیوں کے حوالے سے کوئی سیاسی ایجنڈا نہ ہونے کا متعدد مواقع پر دعویٰ کرچکے ہیں تاہم اس وقت انتخابی عمل میں جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے وہ بطور خاص پی ٹی آئی کی جانب ادارہ جاتی جھکاﺅ کا عندیہ دے رہی ہے۔ گزشتہ روز چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو جو عمران خان کے حلیف اور مسلم لیگ (ن) کے بدترین مخالفوں میں شمار ہوتے ہیں اور خود بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں‘ اپنے ہمراہ راولپنڈی کے ایک ہسپتال کے دورے پر لے گئے جہاں شیخ رشید نے فاضل چیف جسٹس کیلئے دعا کی کہ میری عمر بھی آپ کو لگ جائے چنانچہ شیخ رشید کے ہمراہ فاضل چیف جسٹس کے دورے سے انتخابات کی شفافیت کا سوال اٹھنا بھی فطری امر تھا۔ اس حوالے سے جب سوشل میڈیا پر مختلف تبصرے شروع ہوئے تو فاضل چیف جسٹس کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ انہوں نے کسی کی انتخابی مہم چلانے کا ٹھیکہ لیا ہے نہ انکے بارے میں ایسا تاثر قائم کیا جائے۔ اس معاملہ میں فاضل چیف جسٹس کی نیک نیتی پر یقیناً شبہ نہیں کیا جا سکتاتاہم وہ پبلک مقامات کے دورے کے موقع پر کسی امیدوار کو اپنے ہمراہ رکھیں گے تو اس سے لوگوں کو انتخابی عمل کے بارے میں استفسارات کرنے اور انگلیاں اٹھانے کا بھی موقع ملے گا۔ اگر اس تناظر میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کو شفاف انتخابات کی امید ختم ہوتی نظر آتی ہے تو اس فضا میں منعقد ہونیوالے انتخابات کے متنازعہ ہونے کا امکان بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
اس وقت جبکہ 25 جولائی کے انتخابات میں بہت کم وقت رہ گیا ہے اور امیدواروں کی حتمی فہرست کا مرحلہ بھی طے ہوگیا ہے‘ اگر انتخابات کے انعقاد کے اس مختصر وقت میں بھی انتخابی میدان میں روایتی گہما گہمی نظر نہیں آرہی اور ابھی تک بعض لوگ انتخابات کے مقررہ وقت پر انعقاد کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں تو یہ صورتحال نگرانوں اور الیکشن کمیشن کیلئے یقینًا لمحہ¿ فکریہ ہونی چاہیے۔ اس وقت الیکشن کمیشن اور نگرانوں کا پہلا کام ملک میں مجموعی طور پر اور ہر حلقہ انتخاب میں بالخصوص امن و امان کی صورتحال مثالی بنانے اور انتخابی میدان میں اترنے والی پارٹیوں کے قائدین اور انکے امیدواروں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا ہے جس کے بارے میں گزشتہ روز لیاری کراچی میں بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ پیش آنیوالے پرتشدد واقعہ کی بنیاد پر عدم تحفظ کی فضااجاگر ہوئی ہے اور سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے بقول اس سے بعض عناصر کی جمہوریت دشمنی کھل کر سامنے آگئی ہے تو یہ الیکشن کمیشن اور نگران سیٹ اپ کی ساکھ کا بھی سوال ہے۔ اگر انتخابی عمل میں ادارہ جاتی جانبداری کا شائبہ بھی پیدا ہوا تو ملک میں آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کا تصور بے معنی ہو کر رہ جائیگا۔