دہشت گردی اور قومی وسائل کا استعمال
پاکستان میں معیشت کا عدم استحکام ہی عوام کو نڈھال اور پریشان کرنے کے لیے کم نہیں تھا کہ اب دہشت گردی کا عفریت بھی بے قابو ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ہونے والے تخریب کاری کے الم ناک واقعے نے صرف جانی و مالی نقصان ہی نہیں پہنچایا بلکہ سکیورٹی سسٹم کے حوالے سے کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ ہمیں ان سوالات کے جواب بھی تلاش کرنے چاہئیں اور ملک کے ہر گوشے کی حفاظت کو یقینی بنانی کے لیے تیاری بھی کرنی چاہیے کیونکہ ملک دشمن عناصر ایک بار پھر اپنے مذموم عزائم سے پاکستان کے غیر محفوظ ہونے کا تأثر پیدا کرنے کے لیے کمر بستہ ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف بدھ کو کابینہ اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے جو باتیں کیں وہ بھی قابلِ غور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 010 2ء میں وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم سے قبل کل وسائل کا ایک فیصد خیبرپختونخوا کو دیا گیا اور یہ آج تک دیا جارہا ہے جو417 ارب روپے اب تک بنتے ہیں۔ یہ وسائل این ایف سی ایوارڈ کے علاوہ صوبے کو دیے جاچکے ہیں، یہ ان کا حق تھا جو جغرافیائی صورتحال کا تقاضا تھا تاکہ صوبے میں دہشت گردی کے خلاف فورسزکی استعداد کار میں اضافہ کیا جاسکے اور انھیں جدید آلات سے آراستہ کیا جا سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ خدا جانے یہ بڑی رقم کہاں خرچ ہوئی؟ کسی اور صوبے کو اس طرح اضافی رقم نہیں ملی، اس کا حساب لینا ہمارا حق ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا میں 10 سال پی ٹی آئی کی حکومت رہی۔ ہم الزام تراشی نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر بات کررہے ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت کو چاہیے کہ وہ وزیراعظم کے اس بات کا جواب ضرور دے تاکہ عوام پر بھی واضح ہوسکے کہ قومی خزانے سے ایک خاص مد میں ملنے والی خطیر رقم کہاں اور کیسے خرچ ہوئی۔